شیثؑ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے نبی، آدمؑ اور حوا کے بیٹے نیز ہابیل اور قابیل کے بھائی ہیں۔ آپ ہابیل کے قتل کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے ہدیہ تھے۔ اسی لئے ہبۃ اللہ سے مشہور تھے۔

شیث حضرت آدم کے جانشین اور ان کے بعد پیغمبر بنے۔ اور کئی آسمانی صحیفے آپ پر نازل ہوئے۔ آپ کی چار اولاد تھی اور پہلے بیٹے کے نام إنوش تھا۔

مورخوں کے مطابق انسانی نسل، آدم کی اولاد میں سے شیث سے ہوئی۔ آپ کی عمر 912 سال تھی اور کوہ ابوقبیس میں دفن ہوئے۔ اور لبنان کے مشرق میں بعلبک کے علاقے میں نبی‌ شیث نامی جگہ ایک بڑا مقبرہ شیث نبی سے منسوب ہے۔

حالات زندگی

شیث آدم اور حوا کی اولاد میں سے تیسرے فرزند اور ہابیل و قابیل کے چھوٹے بھائی ہیں۔ تاریخی گزارشات کے مطابق ہابیل کے قتل ہونے کے بعد آدمؑ نے اللہ تعالی سے شکوہ کیا تو ہابیل کے بدلے شیث کے نام سے ایک بیٹا اللہ نے عطا کیا۔ [1] اسی وجہ سے شیث کا لقب ہبۃ اللہ یعنی اللہ تعالی کا ہدیہ، ہوا۔شیث جب پیدا ہوئے تو اس وقت حضرت آدم کی عمر 130 سال تھی۔ [2]

شیث حضرت آدم کی دوسری اولاد کی طرح ایک بہن کے ساتھ جڑواں تھے اور اس بہن کا نام عزوراء تھا۔[3] لیکن بعض تواریخ کے مطابق آپ جڑواں نہیں تھے۔ [4]

ازدواج اور اولاد

تاریخی مآخذ میں شیثؑ کی اہلیہ کا نام حوریہ لکھا گیا ہے جس سے شادی حضرت آدم کی تجویز پر ہوئی ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں چار بیٹے پیدا ہوئے جن میں سب سے بڑا انوش آپ کے جانشین بنے۔[5] شیث کی 105 سال کی عمر میں انوش پیدا ہوئے۔[6]

بعض مآخذ میں شیث کی شادی قابیل کی بہن اقلیما سے ہونے کا کہا گیا ہے۔ [7]

شیث سے انسانی نسل کا پھیل جانا

شیث کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اس کی نسل سے پھیلے ہیں کیونکہ قابیل کی نسل اور خاندان ختم ہوئی ہے۔[8] تاریخی شواہد کے مطابق قابیل کی نسل زنا، شراب‌ خوری، آتش پرستی جیسے گناہ اور لہو لعب کے آلات استعمال کرنے کی وجہ سے طوفان نوح کی وجہ سے ختم ہوئی اور صرف شیث کی نسل باقی رہی۔ [9]

آدمؑ کی جانشینی اور مقام نبوت

اللہ کے حکم سے شیث، آدم کے جانشین اور وصی بنے۔[10] اور وہ تمام علوم جو آدم کو دی گئی تھیں وہ شیث میں منتقل ہوگئیں۔ [11] اور آدمؑ کی رحلت کے بعد نبوت کے مقام پر فائز ہوئے۔ [12] اور لوگوں پر حکومت کی۔ شیث نے آدمؑ کے قوانین جو احکام اور سزاؤں پر مشتمل تھے کو مفسدوں پر جاری کیا اور لوگوں کو تقوی الہی کی دعوت کی ہے۔ اور اچھے کام کا حکم دیا۔[13]

آدمؑ اس ڈر سے کہ کہیں ہابیل کی طرح شیث بھی قتل نہ ہوجائے شیث کو حکم دیا کہ قابیل سے اپنے علم اور مقام کو مخفی رکھے۔[14] اسی لئے شیث ایک عرصے تک تقیہ کی حالت میں زندگی بسر کرتے رہے۔[15] بعض گزراشات میں ملتا بھی ہے کہ شیث جانشین بننے کے بعد قابیل کی طرف سے دھمکیاں بھی ملیں۔ [16]

امام صادقؑ سے منقول ہے کہ جب حضرت آدمؑ وفات پائے تو شیثؑ نے جبرئیل سے حضرت آدم کے جنازے پر نماز پڑھنے کی درخواست کی۔ جبرئیل نے کہا: اللہ تعالی نے ہمیں تمہارے والد کے لیے سجدہ کرنے کا حکم ہوا اور اسی لئے اس کے نیک بیٹوں پر سبقت نہیں لیتا ہوں اور آپ آدم کے بہترین بیٹے ہیں۔ [17]

شیث کے صحف

شیثؑ آدمؑ اور دوسرے پیغمبروں کی طرح آسمانی کئی صحیفوں کے مالک تھے۔ 50 سے زیادہ صحیفے آپ سے منسوب ہوئی ہیں۔ [18]

شیثؑ کی محل زندگی اور تبلیغ مکہ قرار دیا گیا ہے۔ [19] اور آپ اپنی نبوت کے دوران جبرئیل اور دیگر فرشتوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ [20] بعض گزارشات کے مطابق لکھائی ایجاد کرنے والا پہلا شخص جناب شیثؑ ہیں۔ [21]

وفات اور مدفن

لبنان کے شہر بعلبک میں حضرت شیث سے منسوب قبر

طبری نے آپ کی عمر 930 قرار دیا ہے۔ [22] لیکن بعض دوسرے منابع میں 912 سال بھی ذکر ہوا ہے۔ [23] بعض نے آپ کے دفن کی جگہ کوہ کوہ ابوقبیس میں گنج نامی مشہور غار قرار دیا ہے۔ جہاں آدم و حوا کا مدفن بھی کہا ہے۔ [24] جبکہ لبنان کے مشرق میں علاقہ بعلبک میں نبی شیث نامی جگہ پر شیثؑ سے منسوب ایک قبر ہے۔.[25] عراق کے شمال میں موصل میں بھی ایک قبر آپ سے منسوب ہے جو 1435ھ کو داعش کے ہاتھوں مسمار ہوا۔.[26]

شیث کے جانشین

افغانستان کے شہر بلخ میں حضرت شیث سے منسوب مقبرہ

شیث نے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے انوش کو اپنا وصی اور جانشین معین کیا۔ [27] آپ نے انوش کو تقوی کی سفارش کی اور اسے اپنی قوم کو تقوی اور اچھے اعمال کی درخواست کا مطالبہ کیا۔[28]

آپ نے وفات سے پہلے اپنی قوم کو قابیل کی اولاد سے شادی نہ کرنے کی قسم دلائی۔ [29]

صابئین کا شیث پر عقید

صابئین میں سے بعض لوگ اپنی مقدس کتاب کو شیث کے صحیفے سمجھتے ہیں۔[30] بعض مورخوں کا کہنا ہے کہ صابئیں بعض سریانی افراد ہیں جو زمین پر سب سے پرانی امت ہے جو اپنے آپ کو شیث کے بیٹے صابی سے منسوب کرتے ہیں۔ [31]

فص شیثی

ابن‌ عربی‌ نے اپنی کتاب کے دوسرے فص کو فص شیثی قرار دیا ہے۔ شیث حضرت آدم اور اس کی اولاد کے حق میں اللہ تعالی کی طرف سے رحمانیت اور عطا ہے۔ شیث اللہ کی بخشش کا نمونہ ہے۔ یہ ہدیہ ایک لحاظ سے موجودات کی لیاقت کے مطابق ہے جبکہ دوسرے لحاظ سے اللہ تعالی کی رحمانیت سے وابستہ ہے۔[32]

…………………………………………………..

حوالہ جات :

  1. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۱۶۶.
  2. تورات، کتاب تکوین، باب۴، آیہ۲۵-۲۶؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۵.
  3. ابن‌جوزی، المنتظم،‏ ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۱۸.
  4. طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م‏، ج۲، ص۳۸۲.
  5. داورپناہ، انوار العرفان، ۱۳۶۶ش،‏ ج۸، ص۱۳؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان در تفسیر قرآن‏، ۱۴۰۴ق‏، ج۳، ص۳۲۵.
  6. عسکری، ‏عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۳، ص۱۰۱.
  7. سمرقندی، تفسیر السمرقندی‏، ۱۴۱۶ق،‏ ج۱، ص۳۸۵؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م‏، ج۲، ص۳۸۶.
  8. شرف‌‏الدین، الموسوعۃ القرآنیۃ، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۱۴۰.‏
  9. ثعلبی، تفسیر الثعلبی‏، ۱۴۲۲ق‏، ج۴، ص۵۳؛ طبرسی، مجمع البیان،۱۳۷۲ش‏، ج۳، ص۲۸۷.
  10. عسکری، عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۳، ص۶۳ و ۳۳۱.
  11. عسکری، عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۱، ص۲۲۹.
  12. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۹؛ طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش‏، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۸؛ بلعمی، تاریخنامہ طبری، ۱۳۷۸ش، ج‏۱، ص۷۰.
  13. عسکری، عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۳، ص۶۴و۶۵.
  14. ملکی میانجی، مناہج البیان فی تفسیر القرآن‏، ۱۴۱۴ق‏، ج۲، ص۱۷۴.
  15. طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش‏، ج۲، ص۳۹۹.
  16. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۱۰۴.‏
  17. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۶۳.
  18. طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش‏، ج۲، ص۳۹۹؛ معانی الأخبار، ص۳۳۳ منقول از امام حسن عسکری، التفسیر المنسوب إلی الإمام الحسن بن علی العسکری علیہم السلام‏، ۱۴۰۹ق‏، ص۱۵۳.
  19. ابن‌اثیر، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۲۳۰.
  20. جرجانی، درج الدرر، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۶۶۲.
  21. ابن‌العبری، مختصر تاریخ الدول، ۱۳۷۷ش، ص۴؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۹۹.
  22. طبری، ترجمہ تفسیر طبری، ۱۳۵۶ش‏، ج۱، ص۶۲.
  23. مستوفی، تاریخ گزیدہ، ۱۳۶۴ش، ص۲۳؛ ابن‌العبری، مختصر تاریخ الدول، ۱۳۷۷ش، ص۴.
  24. بی‌‏آزار شیرازی، باستان شناسی و جغرافیای تاریخی قصص قرآن‏، ۱۳۸۰ش، ص۲۴۴.
  25. «نگاہی بہ مسجد راس الحسین، حرم شیث نبی ، بارگاہ خولہ و مقبرہ شہید سید عباس موسوی»
  26. «دہشتگردوں نے شیث اور جرجیس نبی کے مرقد کو مسمار کر دیا۔ »
  27. عسکری، ‏عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۱، ص۲۳۰.
  28. عسکری، ‏عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۳، ص۳۳۲.
  29. عسکری، ‏عقاید اسلام در قرآن‏، ۱۳۸۶ش‏، ج۱، ص۲۳۰.
  30. میدانی، معارج التفکر و دقائق التدبر، ۱۳۶۱ش‏، ج۷، ص۵۴۶.
  31. میدانی، معارج التفکر و دقائق التدبر، ۱۳۶۱ش‏، ج۷، ص۵۴۶؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان در تفسیر قرآن‏، ۱۴۰۴ق‏، ج۱، ص۱۹۱.
  32. ابن‌ عربی‌، فصوص‌ الحکم‌، ۱۴۰۰ق‌، ج۱، ص‌۱۷
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے