علی بن حسین زینالعابدین(38-95 ھ)

امام سجادؑ اور زین العابدین کے نام سے مشہور، شیعوں کے چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ آپ 35 سال امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ امام سجادؑ واقعہ کربلا میں حاضر تھے لیکن بیماری کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہیں لے سکے۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد عمر بن سعد کے سپاہی آپ کو اسیران کربلا کے ساتھ کوفہ و شام لے گئے۔ کوفہ اور شام میں آپ کے دیئے گئے خطبات کے باعث لوگ اہل بیتؑ کے مقام و منزلت سے آگاہ ہوئے۔
واقعہ حرہ، تحریک توابین اور قیام مختار آپ کے دور امامت میں رونما ہوئے۔ امام سجادؑ کی دعاؤں اور مناجات کو صحیفہ سجادیہ میں جمع کیا گیا ہے۔ خدا اور خلق خدا کی نسبت انسان کی ذمہ داریوں سے متعلق کتاب، رسالۃ الحقوق بھی آپ سے منسوب ہے۔

شیعہ احادیث کے مطابق امام سجادؑ کو ولید بن عبد الملک کے حکم سے مسموم کرکے شہید کیا گیا۔ آپ امام حسن مجتبیؑ، امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔

حیات طیبہ:
علی بن حسین بن علی بن ابی‌طالب، امام سجادؑ اور امام زین‌العابدینؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے چوتھے امام اور امام حسینؑ کے فرزند ہیں۔ مشہور قول کی بنا پر آپ 38ھ میں متولد ہوئے۔[1] لیکن دوسرے اقوال بھی ہیں جن کے مطابق آپ کی تاریخ ولادت 36ھ، 37ھ [2] یا 48ھ ہے۔[3] آپ نے امام علیؑ کی حیات مبارکہ کا کچھ حصہ اور امام حسن مجتبیؑ اور امام حسینؑ کی امامت کو درک کیا ہے۔[4] امام سجادؑ کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے مطابق آپ کی ولادت بروز جمعرات 15 جمادی الثانی کو ہوئی،[5] اربلی 5 شعبان کو آپ کی تاریخ ولادت مانتے ہیں۔[6] جبکہ بعض منابع میں 9 شعبان بھی ذکر کیا گیا ہے۔[7]

امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ کے نام کے بارے میں بھی اختلاف ہے؛ شیخ مفید آپ کا نام شہربانو بنت یزدگرد ابن شہریار بن کسری[8] اور شیخ صدوق آپ کو ایران کے بادشاہشہریار کے بیٹے یزدگرد کی بیٹی قرار دیتے ہیں جو آپ کی ولادت کے وقت فوت ہو گئے تھے۔[9]

امام سجادؑ کی کنیت ابوالحسن، ابوالحسین، ابومحمّد،‌ابولقاسم اور ابوعبداللّہ ذکر کی گئی ہے[10] اور آپ کے القاب میں زین العابدین، سیدالساجدین، سجاد، ذو الثفنات، ہاشمی، علوی، مدنی، قرشی، اور علی‌اکبر شامل ہیں۔[11] امام سجادؑ اپنے زمانے میں “علی‌الخیر”، “علی‌الاصغر” اور “علی‌العابد” کے نام سے مشہور تھے۔[12]

امام سجادؑ کی تاریخ شہادت کا دقیق علم نہیں؛ اس بنا پر بعض نے 95ھ[13] اور بعض نے 94ھ ذکر کی ہیں۔[14] آپ کی شہادت کے دن کے بارے میں بھی اختلاف ہے؛ من جملہ بروز ہفتہ[15] 12 محرم،[16] یا 25 محرم کو آپ کی شہادت کا دن قرار دیا گیا ہے۔[17] اسی طرح 18 محرم،[18] 19 محرم اور 22 محرم بھی بعض منابع میں دیکھا جا سکتا ہے۔[19]

امام سجادؑ کی شہادت ولید بن عبد الملک کے حکم پر مسموم کرنے کے ذریعے واقع ہوئی۔[20] آپ کو قبرستان بقیع میں امام حسن مجتبیؑ،[21] امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ کے ساتھ سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔[22]

انگشتریوں کے نقش:
امام سجاد علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے تین نقش منقول ہیں:

آپؑ امام حسینؑ کی وہ انگشتری پہن لیا کرتے تھے جس پر “إِنَ‏ اللَّهَ‏ بالِغُ‏ أَمْرِه” (یعنی خداوند متعال اپنا امر و فرمان انجام تک پہنچا دیتا ہے) کا نقش تھا۔[23] آپؑ کی دوسری انگشتریوں کے نقش “وَما تَوْفِیقِی‏ إِلَّا بِاللَّه”،[24] اور”خَزِی‏ وَشَقِی‏ قَاتِلُ الْحُسَینِ بْنِ عَلِی”۔[25]۔[26]

ازواج اور اولاد:
تاریخی منابع میں منقول ہے کہ امام سجادؑ کی پندرہ اولادیں ہیں جن میں سے گیارہ(11) بیٹے اور چار (4) بیٹیاں ہیں۔ [27]

شیخ مفید اور طبرسی کے مطابق امام سجادؑ کے ازواج اور فرزندوں کے نام کچھ یوں ہیں:[28]
ازواج:ام عبداللہ بنت امام حسن، جیدا۔۔۔
اولاد:امام محمد باقر، عبداللہ، حسن و حسین اکبر، زید و عمر، حسین اصغر، عبد الرحمن، سلیمان، علی و خدیجہ، محمد اصغر۔

دلائل امامت:
عاشورا 61ھ کو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے ساتھ ہی امام سجادؑ کی امامت کا آغاز ہوتا ہے اور آپ کا دوران امامت سنہ 94 یا 95 ہجری میں آپ کی شہادت تک جاری رہتا ہے۔

کتب حدیث میں شیعہ محدثین کی منقولہ نصوص کے مطابق امام سجادؑ اپنے والد امام حسین علیہ السلام کے جانشین ہیں۔[29] علاوہ ازیں رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 آئمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی بن الحسین زین العابدین علیہ السلام سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[30]

نیز شیعہ نصوص کے مطابق رسول اللہؐ کی تلوار اور زرہ وغیرہ کو ائمہ کے پاس ہونا چاہئے اور یہ اشیاء ہمارے شیعہ ائمہ کے پاس تھیں حتی کہ اہل سنت کے کتابوں میں اس امر پر صراحت کی گئی ہے رسول خداؐ کی یہ اشیا امام سجادؑ کے پاس تھیں۔ [31]
علاوہ ازیں امام سجادؑ ملت تشیع نے امام کے طور پر قبول کیا اور آپ کی امامت آپ کی امامت کے آغاز سے آج تک مقبول عام ہے جو خود اس حقیقی جانشینی کا بیِّن ثبوت ہے۔

معاصر سلاطین:
• یزید بن معاویہ (61- 64ہجری)
• عبد اللہ بن زبیر (61-73ہجری)
• معاویہ بن یزید
• مروان بن حَکم
• عبد الملک بن مروان (65- 86ہجری)
• ولید بن عبد الملک (86- 96ہجری)[32]

علم اور حدیث میں آپ کا رتبہ:
علم اور حدیث کے حوالے سے آپ کا رتبہ اس قدر بلند ہے کہ حتی اہل سنت کی چھ اہم کتب صحاح ستہ “صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع الصحیح، ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی سنن ابن ماجہ نیز مسند ابن حنبل سمیت اہل سنت کی مسانید” میں آپ سے احادیث نقل کی گئی ہیں۔ بخاری نے اپنی کتاب میں تہجد، نماز جمعہ، حج اور بعض دیگر ابواب میں، [33] اور مسلم بن حجاج قشیری نیشابوری نے اپنی کتاب کے ابواب الصوم، الحج، الفرائض، الفتن، الادب اور دیگر تاریخی مسائل کے ضمن میں امام سجادؑ سے احادیث نقل کی ہیں۔[34]

ذہبی رقمطراز ہے: امام سجادؑ نے پیغمبرؐ امام علی بن ابی طالب سے مرسل روایات نقل کی ہیں جب آپ نے (چچا) حسن بن علیؑ (والد) حسین بن علیؑ، عبداللہ بن عباس، صفیہ|صفیّہ، عائشہ اور ابو رافع سے بھی حدیث نقل کی ہے اور دوسری طرف سے امام محمد باقرؑ، زید بن علی، ابو حمزہ ثمالی، یحیی بن سعید، ابن شہاب زہری، زید بن اسلم اور ابو الزناد نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔[35]

فضائل و مناقب:
عبادت:
مالک بن انس سے مروی ہے کہ علی بن الحسین دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز بجا لاتے تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے چنانچہ آپ کو زین العابدین کہا جاتا ہے۔[36]
ابن عبد ربّہ لکھتا ہے: علی بن الحسین جب نماز کے لئے تیاری کرتے تو ایک لرزہ آپ کے وجود پر طاری ہوجاتا تھا۔ آپ سے سبب پوچھا گیا تو فرمایا: “وائے ہو تم پر! کیا تم جانتے ہو کہ میں اب کس ذات کے سامنے جاکر کھڑا ہونے والا ہوں! کس کے ساتھ راز و نیاز کرنے جارہا ہوں!؟”۔[37]
مالک بن انس سے مروی ہے: علی بن الحسین نے احرام باندھا اور لبیّكَ اللهمّ لبَيكَ پڑھ لیا تو آپ پر غشی طاری ہوئی اور گھوڑے کی زین سے فرش زمین پر آ گرے۔[38]

غربا و مساکین کی سرپرستی:
ابو حمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ علی بن الحسینؑ راتوں کو کھانے پینے کی چیزوں کو اپنے کندھے پر رکھ کر اندھیرے میں خفیہ طور پر غربا اور مساکین کو پہنچا دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: “جو صدقہ اندھیرے میں دیا جائے وہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے”۔[39]
محمد بن اسحاق کہتا ہے: کچھ لوگ مدینہ کے نواح میں زندگی بسر کرتے تھے اور انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کے اخراجات کہاں سے پورے کئے جاتے ہیں، علی ابن الحسینؑ کی وفات کے ساتھ ہی انہيں راتوں کو ملنے والی غذائی امداد کا سلسلہ منقطع ہوا۔ [40]

راتوں کو روٹی کے تھیلے اپنی پشت پر رکھ دیتے تھے اور محتاجوں کے گھروں کا رخ کرتے تھے اور کہتے تھے: رازداری میں صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو بجھا دیتا ہے، ان تھیلوں کو لادنے کی وجہ سے آپ کی پیٹھ پر نشان پڑ گئے تھے اور جب آپ کا وصال ہوا تو آپ کو غسل دیتے ہوئے وہ نشانات آپ کے بدن پر دیکھئے گئے۔[41] ابن سعد روایت کرتا ہے: جب کوئی محتاج آپ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ فرماتے: “صدقہ سائل تک پہنچنے سے پہلے اللہ تک پہنچ جاتا ہے”۔ [42]

ایک سال آپؑ نے حج کا ارادہ کیا تو آپ کی بہن سکینہ بنت الحسینؑ نے ایک ہزار درہم کا سفر خرچ تیار کیا اور جب آپ حرہ کے مقام پر پہنچے تو وہ سفر خرچ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور امامؑ نے وہ محتاجوں کے درمیان بانٹ دیا۔ [43]

آپ کا ایک چچا زاد بھائی ضرورتمند تھا اور آپ راتوں کو شناخت کرائے بغیر آپ کو چند دینار پہنچا دیتے تھے اور وہ شخص کہتا تھا: “علی ابن الحسین” قرابت کا حق ادا نہیں کرتے خدا انہیں اپنے اس عمل کا بدلہ دے۔ امامؑ اس کی باتیں سن کر صبر و بردباری سے کام لیتے تھے اور اس کی ضرورت پوری کرتے وقت اپنی شناخت نہیں کراتے تھے۔ جب امامؑ کا انتقال ہوا تو وہ احسان اس مرد سے منقطع ہوا اور وہ سمجھ گیا کہ وہ نیک انسان امام علی بن الحسینؑ ہی تھے؛ چنانچہ آپ کے مزار پر حاضر ہوا اور زار و قطار رویا۔[44]

ابونعیم رقمطراز ہے: امام سجادؑ نے دو بار اپنا پورا مال محتاجوں کے درمیان بانٹ دیا اور فرمایا: خداوند متعال مؤمن گنہگار شخص کو دوست رکھتا ہے جو توبہ کرے۔[45] ابو نعیم ہی لکھتے ہیں: بعض لوگ آپ کو بخیل سمجھتے تھے لیکن جب دنیا سے رحلت کرگئے تو سمجھ گئے کہ ایک سو خاندانوں کی کفالت کرتے رہے تھے۔[46] جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو آپ فرماتے تھے: آفرین ہے اس شخص پر جو میرا سفر خرچ آخرت میں منتقل کررہا ہے”۔ [47]

غلاموں کے ساتھ آپ کا طرز سلوک:
امام سجادؑ کے تمام تر اقدامات دینی پہلوؤں کے ساتھ سیاسی پہلؤوں کے حامل بھی ہوتے تھے اور ان ہی اہم اقدامات میں سے ایک غلاموں کی طرف خاص توجہ سے عبارت تھا۔ غلاموں کا طبقہ وہ طبقہ تھا جو خاص طور پر خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے بعد اور بطور خاص بنی امیہ کے دور میں شدید ترین سماجی دباؤ کا سامنا کررہا تھا اور اسلامی معاشرے کا محروم ترین طبقہ سمجھا جاتا تھا۔
امام سجادؑ نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی طرح اپنے [خالص] اسلامی طرز عمل کے ذریعے عراق کے بعض موالی کو اپنی طرف متوجہ اور اپنا گرویدہ بنا لیا اور معاشرے کے اس طبقے کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔

سید الاہل نے لکھا ہے: امام سجادؑ ـ جنہیں غلاموں کی کوئی ضرورت نہ تھی ـ غلاموں کی خریداری کا اہتمام کرتے اور اس خریداری کا مقصد انہيں آزادی دلانا ہوتا تھا۔ غلاموں کا طبقہ امامؑ کا یہ رویہ دیکھ کر، اپنے آپ کو امامؑ کے سامنے پیش کرتے تھے تاکہ آپ انہیں خرید لیں۔ امامؑ ہر موقع مناسبت پر غلام آزاد کرٹیتے تھے اور صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں آزاد شدہ غلاموں اور کنیزوں کا ایک لشکر دکھائی دیتا تھا اور وہ سب امام سجادؑ کے موالی تھے۔[48]

امام سجاد اور واقعۂ کربلا:

کربلا:

امام سجادؑ واقعۂ کربلا میں اپنے والد امام حسینؑ اور اولاد و اصحاب کی شہادت کے دن، شدید بیماری میں مبتلا تھے اور بیماری کی شدت اس قدر تھی کہ جب بھی یزیدی سپاہی آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرتے، ان ہی میں سے بعض کہہ دیتے تھے کہ “اس نوجوان کے لئے یہی بیماری کافی ہے جس میں وہ مبتلا ہے”۔[49]

اسیری کے ایام:

عاشورا 61ھ کے بعد، جب لشکر یزید نے اہل بیت کو اسیر کرکے کوفہ منتقل کیا، تو ان میں سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے علاوہ امام سجادؑ نے بھی اپنے خطبوں کے ذریعے حقائق واضح کئے اور حالات کی تشریح کی اور اپنا تعارف [50] کراتے ہوئے یزید کے کارندوں کے جرائم کو آشکار کردیا اور اہل کوفہ پر ملامت کی۔[51]

امام سجادؑ نے کوفیوں سے خطاب کرنے کے بعد ابن زیاد کی مجلس میں بھی موقع پا کر چند مختصر جملوں کے ذریعے اس مجلس کے حاضرین کو متاثر کیا۔ اس مجلس میں ابن زیاد نے امام سجادؑ کے قتل کا حکم جاری کیا[52] لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے درمیان میں آ کر ابن زياد کے خواب سچا نہيں ہونے دیا۔

اس کے بعد جب یزیدی لشکر اہل بیتؑ کو “خارجی اسیروں” کے عنوان سے شام لے گیا تو بھی امام سجاد علیہ السلام نے اپنے خطبوں کے ذریعے امویوں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

جب اسیران آل رسولؐ کو پہلی بار مجلس یزید میں لے جایا گیا تو امام سجادؑ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ امامؑ نے یزید سے مخاطب ہوکر فرمایا: تجھے خدا کی قسم دلاتا ہوں، تو کیا سمجھتا ہے اگر رسول اللہؐ ہمیں اس حال میں دیکھیں!؟[53] یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کے ہاتھ پاؤں سے رسیاں کھول دی جائیں۔[54]

اسیری کے بعد:

امام سجادؑ واقعۂ کربلا کے بعد 34 سال بقید حیات رہے اور اس دوران آپ نے شہدائے کربلا کی یاد تازہ رکھنے کی ہر کوشش کی۔
پانی پیتے وقت والد کو یاد کرتے تھے، امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرتے اور آنسوں بہاتے تھے۔ ایک روایت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول کہ امام سجادؑ نے (تقریبا) چالیس سال تک اپنے والد کے لئے گریہ کیا جبکہ دنوں کو روزہ رکھتے اور راتوں کو نماز و عبادت میں مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت جب آپ کا خادم کھانا اور پانی لا کر عرض کرتا کہ آئیں اور کھانا کھائیں تو آپؑ فرمایا کرتے: “فرزند رسول اللہ بھوکے مارے گئے! فرزند رسول اللہؐ پیاسے مارے گئے!”، اور یہی بات مسلسل دہراتے رہتے اور گریہ کرتے تھے حتی کہ آپ کے اشک آپ کے آب و غذا میں گھل مل جاتے تھے؛ آپ مسلسل اسی حالت میں تھے حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے۔[55]

معاصر تحریکیں:
امام سجاد علیہ السلام کے زمانے میں اور کربلا کے واقعے کے بعد مختلف تحریکیں اٹھیں جن میں سے اہم ترین کچھ یوں ہیں:

واقعۂ حَرَہ:

کربلا کا واقعہ رونما ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد مدینہ کے عوام نے اموی حکومت اور یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کرکے حرہ کی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کی قیادت جنگ احد میں جام شہادت نوش کرنے والے حنظلہ غسیل الملائکہ کے بیٹے عبد اللہ بن حنظلہ کررہے تھے اور اس قیام کا نصب العین اموی سلطنت اور یزید بن معاویہ اور اس کی غیر دینی اور غیر اسلامی روش کی مخالفت اور اس کے خلاف جدوجہد، تھا۔ امام سجادؑ اور دوسرے ہاشمیوں کی رائے اس قیام سے سازگار نہ تھی چنانچہ امامؑ اپنے خاندان کے ہمراہ مدینہ سے باہر نکل گئے۔ امام زین العابدینؑ کی نظر میں یہ قیام نہ صرف ایک شیعہ قیام نہ تھا بلکہ درحقیقت آل زبیر کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا تھا، اور آل زبیر کی قیادت اس وقت عبد اللہ بن زبیر کررہا تھا اور عبد اللہ بن زبیر وہ شخص تھا جس نے جنگ جمل کے اسباب فراہم کئے تھے۔ یہ قیام یزید کے بھجوائے گئے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے کچل ڈالا جس نے اپنے مظالم کی بنا پر مسرف کا لقب کما لیا۔ [56]

توابین کا قیام:

توابین کی تحریک واقعۂ کربلا کے بعد اٹھنے والی تحریکوں میں سے ایک تحریک تھی جس کی قیادت سلیمان بن صرد خزاعی سمیت شیعیان کوفہ کے چند سرکردہ بزرگ کررہے تھے۔ توابین کی تحریک کا نصب العین یہ تھا کہ بنو امیہ پر فتح پانے کی صورت میں مسلمانوں کی امامت و قیادت کو اہل بیتؑ کے سپرد کریں گے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسل سے اس وقت علی بن الحسینؑ کے سوا کوئی بھی نہ تھا جس کو امامت مسلمین سونپی جاسکے۔ تاہم امام علی بن الحسینؑ اور توابین کے درمیان کوئی باقاعدہ سیاسی ربط و تعلق نہ تھا۔ [57]

مختار کا قیام:

مختار بن ابی عبید ثقفی کا قیام، یزید اور امویوں کی حکمرانی کے خلاف واقعۂ عاشورا کے بعد تیسری بڑی تحریک کا نام ہے (جو واقعۂ حرہ اور قیام توابین کے بعد شروع ہوئی۔ اس تحریک کے امام سجادؑ کے ساتھ تعلق کے بارے میں بعض ابہامات پائے جاتے ہیں۔ یہ تعلق نہ صرف سیاسی تفکرات کے لحاظ سے بلکہ محمد بن حنفیہ کی پیروی کے حوالے سے، اعتقادی لحاظ سے بھی مبہم اور اس کے بارے میں کوئی یقینی موقف اپنانا مشکل ہے۔ روایت ہے کہ جب “مختار” نے کوفہ کے بعض شیعیان اہل بیتؑ کی حمایت حاصل کرنے کے بعد امام سجاد علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کیا مگر امامؑ نے خیر مقدم نہیں کیا۔[58]

اصحاب:
ایک روایت کے ضمن میں منقول ہے کہ امام سجادؑ کو صرف چند افراد کی معیت حاصل تھی: سعید بن جبیر، سعید بن مسیب، محمد بن جبیر بن مطعم، یحیی بن ام طویل، ابو خالد کابلی.[59]
شیخ طوسی، نے امام سجادؑ کے اصحاب کی مجموعی تعداد 173 بیان کی ہے۔ [60]
امام سجادؑ شیعیان اہل بیتؑ کی قلت کا شکوہ کرتے تھے اور فرماتے تھے مکہ اور مدینہ میں ہمارے حقیقی پیروکاروں کی تعداد 20 افراد سے بھی کم ہے۔[61]

تقیہ:
اموی – علوی تعلق کی کیفیت کے پس منظر کے پیش نظر امام سجادؑ کو اموی حکمرانوں کی شدید بدگمانی کا سامنا تھا اور امامؑ کا کوئی معمولی سا کام بھی خطرناک نتائج پر ختم ہوسکتا تھا اور فطری سی بات تھی کہ اس قیمت پر کسی قسم کے اقدامات کرنا مناسب نہ تھا۔ اہم ترین دینی اور سیاسی اصول جس کے سائے میں امام سجادؑ زندگی بسر کررہے تھے وہ تھا: “تقیّہ”۔
امام سجادؑ نہایت دشوار حالات میں زندگی بسر کررہے تھے اور آپ کے پاس تقیہ کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اصولی طور پر یہی تقیہ ہی ہے جس نے اُس زمانے میں شیعیان آل رسولؐ کو تحفظ دیا۔
روایت ہے کہ ایک شخص نے امام سجادؑ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا: زندگی کس طرح گذر رہی ہے؟ امامؑ نے جواب دیا:
“زندگی اس طرح سے گذار رہے ہیں کہ اپنی قوم کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے کہ بنی اسرائیل آل فرعون کے درمیان تھے، ہمارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے ہیں ہماری عورتوں کو زندہ رکھ لیتے ہیں؛ لوگ ہمارے بزرگ اور ہمارے سید و سردار پر سبّ اور دشنام طرازی کرکے ہمارے دشمنوں کی قربت حاصل کرتے ہیں؛ اگر قریش دوسرے عربوں کے سامنے فخر کرتے ہیں کہ رسول اللہ قریش میں سے تھے اور اگر عرب فخر عجم پر تفاخر کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ عرب تھے اور اگر قریش اس حوالے سے اپنے لئے فوقیت اور برتری کے قائل ہیں تو ہم اہل بیت کو قریش پر برتر ہونا چاہئے اور ہمیں ان کے سامنے اس فضیلت پر فخر کرنا چاہئے کیونکہ محمدؐ ہم اہل بیت میں سے ہیں۔ مگر انھوں نے ہمارا حق ہم سے چھین لیا اور ہمارے لئے کسی بھی حق کے قائل نہيں ہیں۔ اگر تم نہيں جانتے کہ زندگی کس طرح گذر رہی ہے تو جان لو کہ زندگی اس طرح گذر رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا”۔ راوی کہتا ہے کہ امامؑ اس طرح سے بات کررہے تھے کہ صرف قریب بیٹھے ہوئے افراد سن سکیں۔[62]

آثار اور کاوشیں:
حدیث امام سجادؑ کی التجا بدرگاہ پروردگار: “اللهم اجعلني أهابهما هيبة السلطان العسوف، وأبرهما بر الام الرؤف، واجعل طاعتي لوالدي وبري بهما أقر لعيني من رقدة الوسنان، وأثلج لصدري من شربة الظمأن حتى أوثر على هواي هواهما، وأقدم على رضاي رضاهما، وأستكثر برهما بي وإن قل، وأستقل بري بهما وإن كثر”۔
بار پروردگارا! مجھے یوں قرار دے کہ والدین سے اس طرح ڈروں جس طرح کہ کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق ومہربان رہوں (جس طرح شفیق ماں ) اپنی اولاد پر شفقت کرتی ہے اوران کی فرما نبرداری اوران سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے، چشم خواب آلود میں نیند کے خمار سے زیادہ، کیف افزا اور میرے قلب و روح کے لئے، پیاسے شخص کے لئے ٹھنڈے پانی سے زیادہ، دل انگیز قرار دے؛ حتی کہ میں ان کی خواہش کو اپنی خواہشات پر فوقیت دوں اور ان کی خوشنودی کو اپنی خوشی پر مقدم رکھوں اور جو احسان وہ مجھ پر کریں اس کو زیادہ سمجھوں خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو اور ان کے ساتھ اپنی نیکی کو کم سمجھوں خواہ وہ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ [63]

صحیفہ سجادیہ اور رسالۃ الحقوق امام سجادؑ کی کاوشوں میں سے ہیں۔ [64]

صحیفہ سجادیہ، امام سجادؑ کی دعاؤں پر مشتمل کتاب ہے جو صحیفہ کاملہ، اخت القرآن، انجیل اہل بیت اور زبور آل محمد کے نام سے مشہور ہے۔

رسالۃ الحقوق بھی امام سجاد علیہ السلام سے منسوب رسالہ ہے جو روایت مشہورہ کے مطابق 50 حقوں پر مشتمل ہے اور زندگی میں ان کو ملحوظ رکھنا ہر انسان پر لازم ہے۔ پڑوسیوں کا حق، دوست کا حق، قرآن کا حق، والدین کا حق اور اولاد کا حق، ان حقوں میں شامل ہیں۔[65]
________________

حوالہ جات:

1. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۷۳۔
2. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
3. شہیدی، زندگانی علی بن الحسین(ع)، ۱۳۸۰ش، ص۳۲۔
4. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
5. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
6. اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۷۳۔
7. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵۔
8. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷۔
9. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۱۲۸۔
10. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۴ق، ج۴،ص۳۸۶۔
11. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۳۸۶؛ ذہبی، العِبَر، دار الکتب العلمیہ، ج۱، ص۸۳.
12. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۵، ص۲۲۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۹۶۲م، ج۱۵، ص۲۷۳۔
13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج‏۲، ص۱۳۷؛ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۱۶۰۔
14. اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲؛ شبراوی، الإتحاف بحب الأشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶۔
15. امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج‏۱، ص۶۲۹۔
16. طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ شبراوی، الإتحاف بحب الأشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶۔
17. قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج‏۲، ص۱۱۶۷۔
18. اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲.
19. امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۳ق، ج‏۱، ص۶۲۹۔
20. شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۲۷۶و۲۷۷۔
21. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶۔
22. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۶۶؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۸۲۔
23. کلینی، الکافی ج6 ص474۔
24. نہیں مجھے توفیق مگر اللہ کی طرف سے: مجلسی، بحار الانوار، ج46 ص14۔
25. رسوا اور بدبخت ہوا قاتل حسین بن علی کا: کلینی، وہی ماخذ ج6 ص474۔
26. صدوق، الأمالی، ص 131۔
27. مفید، الارشاد، ص380؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ج4، ص189؛ ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص333-332۔
28. المفید، الارشاد، بیروت: مؤسسۃ آل البیتؑ لتحقیق التراث، 1414/1993، ص 155، طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۲۔
29. کافی، ج1، صص 188-189.
30. مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب هشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم) نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحارالأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الهداة ج 3،‌ ص 123؛ المناقب ابن شهر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا) نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحارالأنوار ج36 ص337، کفایہ الأثر ص 157۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔
31. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج 1، صص 486، 488؛ امین الاسلام فضل بن فضل بن حسن طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص207
32. شیخ مفید، الارشاد، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ص 254; مجلسی، بحار الانوار، المکتبۃ الاسلامیۃ، ج 46، ص 12۔
33. بخاری، رجال صحیح بخاری، ج 2، ص 527.
34. ابن منجویه، رجال صحیح مسلم، ج2،ص53.
35. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 386؛ م‍زی، تہذیب الکمال، ج 13، ص 237.
36. ذهبی، العِبَر، ج 1، ص 83.
37. ابن عبد ربه، عقدالفرید، ج 3، ص 169؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 392.
38. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 392.
39. ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج 4، ص 393.
40. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 4، ص 393.
41. ابو نعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ کشف الغمه ج 2 ص 77؛ مناقب ج 4 ص 154؛ صفة الصفوة ج 2 ص 154؛ خصال ص 616؛ علل الشرایع ص 231؛ بحار ص 90؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، صص 147-148.
42. طبقات ج 5 ص 160؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
43. کشف الغمه ج 2 ص 78؛ صفة الصفوة ج 2 ص 54؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
44. کشف الغمه ج 2 ص .107، ابو نعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء ج 3 ص 140؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
45. حلیة الاولیاء ج3 ص 136، طبری حصہ 3 ص 2482، طبقات ابن سعد ج5 ص162؛ بحوالہ شہیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148۔
46. صفة الصفوة ج 2 ص 54؛ حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ طبقات ج 5 ص 164؛ بحوالہ شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
47. کشف الغمه ج 2 ص 77؛ مناقب ج 4 ص 154؛ حلیة الاولیاء ج 3 ص 136؛ بحار ص 137؛ به نقل شهیدی، زندگانی علی بن الحسینؑ، ص 148.
48. سید الاهل، زین العابدین، صص 7، 47.
49. شیخ مفید، الارشاد، ج 2، ص 113 و طبرسی، اعلام الوری،ج 1، ص 469.
50. مازندرانی، ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج 3، ص 261 ؛ طبرسی، الاحتجاج، مشهد، ج 2، ص 305 و شیخ عباس قمی، منتهی الامال،ج 1، ص 733.
51. سید بن طاووس، اللہوف ، ص 220-222؛ طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 306؛ قمی، منتہی الامال، ج 1، ص 733.
52. مجلسی، بحار الانوار ، ج 45، ص 117؛ سید بن طاووس، اللہوف، ص 228.
53. سید بن طاووس، اللہوف ، ص 248 و ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448 و حلی، مثیر الاحزان، ص 78 و ابومخنف، مقتل الحسین، ص 240.
54. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 10، ص 448.
55. سید بن طاووس، اللہوف ، ص 290 و مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 149 و شیخ عباس قمی، نفس المہموم ، ج 1، ص 794.
56. دیکھیں: رمخشری، ربیع الابرار، ج1، ص353؛ طبری، تاریخ الطبری، ج5، ص245؛ دینوری، الامامه و السیاسه، ج1، ص208۔ حرہ کے واقعے میں یزیدی لشکر کے حملے میں مسلم بن عقبہ نے 700 عمائدین سمیت اہل مدینہ کے دس ہزار افراد کو قتل کیا۔ [خلیفة بن خیاط، تاریخ خلیفة بن خیاط، قسم1، ص291] ابن قتیبہ لکھتا ہے کہ یزید کے کمانڈر مسلم بن عقبہ نے صحابہ میں سے ستر افراد کو قتل کرکے ان کے سر تن سے جدا کردیئے [دینوری، ابو محمد ابن قتیبة الامامة والسیاسة، ج 1، ص 213- 212٫] مسلم بن عقبہ نے اہل مدینہ کے جان و مال کو غارت کرنے کے بعد یزید کے براہ راست حکم پر تین دن کی عرصے تک مدنی عوام کی ناموس کو اپنی سپاہ کے لئے مباح کردیا اور ایک ہزار کنواری لڑکیوں کی بکارت زائل ہوئی اور حرہ کے بعد ہزاروں عورتوں نے بنا شوہر کے زنا کے بچوں کو جنم دیا جن کو اولاد الحرہ کا نام دیا گیا۔ ایک قول کے مطابق 10 ہزار کنواری لڑکیوں کو زيادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد اہلیان مدینہ نے آزاد مسلمانوں کے طور پر نہيں بلکہ “عبد یزید” (یزید کے بندوں) کے طور پر یزید کی بیعت کی اور جس نے بیعت سے انکار کیا مسرف نے اس سے سپرد شمشیر کیا۔ سوائے علی بن عبداللہ بن عباس کے جس کو مسرف کی فوج میں موجود اپنے رشتہ داروں نے بچا لیا۔ [مسعودی، ابو الحسن على، مروج الذهب، ج1، ص 328٫] تحریک حرہ کے فعال کارکنوں نے مسرف کی چڑھائی سے قبل ایک ہزار امویوں یا امویوں کے بہی خواہوں کو مدینہ سے نکال باہر کیا تو بعض اموی خاندانوں نے امام سجادؑ کے گھر میں پناہ لی اور جب مسرف کے فوجیوں نے شہر میں لوٹ مار کا آغاز کیا تو امامؑ کا گھر مدنی مظلومین کے لئے پرامن ٹھکانے میں تبدیل ہوا تھا اور حتی کہ مسرف کی واپسی تک سو کے قریب خواتین اور بچے آپ کے گھر میں میں تھے اور ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں {طبرى‏، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ طبرى ج 2، ص 482٫]۔
57. دیکھئے: جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ص286.
58. طوسی، رجال الکشی، ص126؛ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 126.
59. طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 115؛ طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 123
60. طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص 115.
61. ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 4، ص 104، و نک: مجلسی، بحارالانوار، ج 46، ص 143؛ الغارات، ص 573.
62. سید ابن طاووس، اللہوف، ص193؛ تاریخ سیاسی اسلام، رسول جعفریان، ج 3، ص 252
63. صحیفہ سجادیہ، دعای 24، ص 152.
64. دیکھئے: شہیدی، علی بن الحسین، ص191-169.
65. شهیدی، علی بن الحسین، ص170-169.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے