مقدمہ:
تمام مسلمان اور تمام اسلامی فرقے سید الانبیاء، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن عید اور جشن مناتے ہیں، اور امام صادقؑ  کی ولادت بھی اسی دن ہے، اسی لیے شیعہ بھی ان دونوں مواقع پر عید اور جشن مناتے ہیں اور اس دن کا احترام کرتے ہیں۔
علماء وہابی اور ان کے پیروکار اگرچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اور ان کی پیروی کے دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر مسلمانوں کے اس خوشی کے موقع پر خوش ہونے اور حشن منانے کا مذاق اڑاتے اور اس مبارک دن جشن اور عید منانے کو حرام قرار دیتے ہیں، اس بارے میں ان کے علماء کے فتوے بھی موجود ہیں۔
ابتدا میں اس جشن کے حرام ہونے کے بارے میں وہابی علماء کے اقوال اور فتوے ذکر کرتے ہیں، پھر تفصیل سے اس سوال کے جواب کو بیان کریں گے۔
جشن ولادت کے بدعت ہونے کے بارے میں علماء وہابی کے اقوال اور فتوے:
اس بارے میں ان کے توہین آمیز اقوال اور فتوے بہت زیادہ ہیں لیکن ہم نمونے کے طور پر صرف دو کو ذکر کرتے ہیں:

1- ابن تیمیہ کا فتویٰ:
ابن تیمیہ وہابیوں کا فکری راہنما ہے اور وہ اس بارے میں کہتا ہے کہ:
إن اتخاذ هذا اليوم عيداً، محدثٌ لا أصل له، فلم يكن في السلف لا من أهل البيت و لا غيرهم من اتخذ ذلك عيداً، حتي يحدث فيه اعمالا إذ الأعياد شريعة من الشرائع فيجب فيها الاتباع لا الابتداع و للنبي خطب و عهود و وقائع في أيام متعددة مثل يوم بدر و حنين و الخندق و فتح مكة و وقت هجرته و دخوله المدينة و خطب له متعددة يذكر فيها قواعد الدين ثم لم يوجب ذلك أن يتخذ مثال تلك الأيام أعيادا و انّما يفعل مثل هذا: النصاری الذين يتّخذون أمثال أيام حوادث عيسي(عليه السلام) أعياداً أو اليهود، و إنما العيد شريعة فما شرعه الله اتبع و إلا لم يحدث في الدين ما ليس منه.
و كذلك ما يحدثه بعض الناس اما مضاهاةً للنصاری في ميلاد المسيح، و امّا محبّة للنبی(صلی اللّٰه عليه و آله) و تعظيماً له . فإن هذا لم يفعله السلف، و لو كان خيراً محضاً أو راجحاً لكان السلف أحقَّ به مِنّا۔
رسول خدا کی ولادت کے دن عید منانا، یہ ایک نیا اور بے بنیاد کام ہے۔ گذشتہ لوگوں اور حتیٰ اہل بیت میں سے کسی نے بھی اس دن عید اور خوشی نہیں منائی، کیونکہ عید منانے کا تعلق شریعت سے ہے، پس اس بارے میں شریعت کی پیروی کرنی چاہیے نہ کہ اپنی طرف سے بدعت کو ایجاد کرنا چاہیے۔رسول خدا  کی ولادت کے دن عید اور جشن منانا، یہ ایک نیا کام ہے کہ جس کی اسلام میں کوئی اساس اور بنیاد نہیں ہے۔ خود اہل بیت اور گذشتہ لوگوں نے اس دن عید اور جشن نہیں منایا اور ایسے کام انجام نہیں دئیے کہ جس سے آج کے دن خوشی منانا ظاہر ہوتا ہو، کیونکہ عید منانے کا تعلق شریعت اسلام سے ہے تو اس بارے میں شریعت کی پیروی کرنی چاہیے نہ کہ اپنی طرف سے دین اور شریعت میں بدعت ایجاد کرنی چاہیے۔ خود رسول خدا (ص)کے مختلف واقعات میں، جیسے جنگ بدر، حنین، خندق کے موقع پر، فتح مکہ کے موقع پر، ہجرت کے وقت، مدینہ میں داخل ہوتے وقت بہت سے خطبے اور عہد نامے ہیں کہ جن میں انہوں نے دین اسلام کے اصول اور قوانین کو بیان کیا ہے لیکن اپنی ولادت اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر عید منانے اور خوشی کرنے کو واجب قرار نہیں دیا۔
بلکہ اس طرح کے کام مسیحیت میں مسیحی انجام دیتے ہیں اور جن ایام میں حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، وہ اس کی یاد میں عید اور جشن مناتے ہیں۔ یہود بھی بالکل مسیحیوں والے کام انجام دیتے ہیں۔
عید منانا، ایک ایسا کام ہے کہ جس کو خداوند نے شریعت میں قرار دیا ہے، پس جس کام کو خداوند نے شریعت میں جائز قرار دیا ہے، اس کی اطاعت اور پیروی کرنی چاہیے، ورنہ جو چیز دین میں نہ ہو، اس کا دین میں اپنی طرف سے اضافہ نہیں کرنا چاہیے۔
اور بعض لوگ اپنی طرف سے نئے نئے کام انجام دیتے ہیں، یہ لوگ خود کو یا حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کے موقع پر جشن منانے میں عیسائیوں کے مشابہہ کرتے ہیں یا رسول خدا (ص)سے محبت اور ان کا احترام کرنے کی وجہ سے….گذشتہ لوگوں نے عید اور جشن نہیں منایا، اور اگر یہ نیک اور اچھا کام ہوتا تو وہ لوگ ضرور اس کام کو انجام دیتے اور وہ لوگ ہماری نسبت ایسے کام انجام دینے کے لیے زیادہ مناسب اور حقدار تھے۔
ابن تيميه الحرانی الحنبلی، ابو العباس أحمد عبد الحليم (متوفی 728 هـ)، اقتضاء الصراط المستقيم مخالفة أصحاب الجحيم، ج 1، ص 294، تحقيق: محمد حامد الفقي، دار النشر:مطبعة السنة المحمدية – القاهرة،

2- بن باز ( وہابی مفتی )
بن باز ایک وہابی مفتی ہے کہ اس سے جب رسولؐ خدا کی ولادت کے موقع پر جشن منانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ایسا جشن منانا بدعت ہے۔عبد الرحمان بن اسماعیل ابو شامہ نے اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع، میں بن باز سے کیے گئے سوال اور اس کے جواب کے متن کو نقل کیا ہے کہ:
السؤال الأول
الحمد للّٰه و الصلاة و السلام علی رسول اللّٰه و علی آله و صحبه و من اهتدی بهداه أما بعد فقد تكرر السؤال من كثير عن حكم الاحتفال بمولد النبی صلی اللّٰه عليه و سلم و القيام له فی أثناء ذلك و إلقاء السلام و غير ذلك مما يفعل فی المولد.
و الجواب أن يقال لا يجوز الاحتفال بمولد الرسول صلی اللّٰه عليه و سلم و لا غيره لأن ذلك من البدع المحدثة فی الدين لأن الرسول صلی اللّٰه عليه و سلم لم يفعله و لا خلفاؤه الراشدون و لا غيرهم من الصحابة رضوان اللّٰه علی الجميع و لا التابعون لهم بإحسان فی القرون المفضلة و هم أعلم الناس بالسنة و أكمل حبا لرسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه و سلم و متابعة لشرعة ممن بعدهم۔
و قد ثبت عن النبی صلی اللّٰه عليه و سلم أنه قال من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد أي مردود عليه و قال فی حديث آخر عليكم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدی تمسكوا بها و عضوا عليها بالنواجذ و إياكم و محدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة و كل بدعة ضلالة.
پہلا سوال: حمد اور تعریف خدا کی ذات کے لیے خاص ہے اور سلام اور درود ہو رسول خدا، ان کے اھل بیت، ان کے اصحاب اور ان لوگوں پر کہ جہنوں نے ہدایت کی راہ پر ان کی پیروی کی۔
اما بعد: بہت سے لوگ رسول خدا کی ولادت کے جشن منانے، ان حضرت کے احترام میں کھڑے ہونے اور ان حضرت پر سلام کرنے وغیرہ کے بارے میں بار بار سوال کرتے ہیں؟
جواب: رسول خدا کی ولادت کا جشن وغیرہ منانا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ کام دین میں نئی بدعت ایجاد کرنا ہے، اسلئے کہ خود رسول خدا (ص)، خلفائے راشدین، دوسرے صحابہ اور تابعین وغیرہ نے اس دور میں کہ وہ بہترین دور تھا، اس جشن وغیرہ کو نہیں منایا اور حالانکہ وہ ہم سے زیادہ سنت کے بارے میں علم رکھتے تھے اور رسول خدا کی نسبت ان کی محبت اور اطاعت بھی ہماری نسبت کامل تر تھی۔
رسول خدا (ص) سے نقل ہوا ہے کہ، آپؐ نے فرمایا کہ: جو اس چیز کو کہ جو دین میں نہ ہو، اس کو دین میں داخل کرے تو دین نے اس چیز کو ردّ کیا ہے، یعنی دین اسکو قبول نہیں کرتا۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ: تم لوگوں پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا واجب ہے، اس سے تمسک کرو اور اگر اپنے دانتوں سے بھی ہو سکے تو اسکی حفاظت کرو اور بدعت سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور بدعت گمراہ کرنے والی ہے۔
عبد الرحمن بن إسماعيل أبو شامة (متوفی 665 هـ)، الباعث علی إنكار البدع و الحوادث، ج 1، ص 107، تحقيق: عثمان أحمد عنبر،، دار النشر: دار الهدي – القاهرة،

شیخ صالح فوزان کی جشن میلاد کے بارے میں نظریہ:
پہلے تین افضل ادوار اور صدیوں میں سلف کے عمل میں سے نہ تھیں اور نہ ہی آئمہ اربعہ کے طریقے میں سے بلکہ اس کو قرون مفضلہ کے بعد زنادقہ اور جہلاء نے ایجاد کیا تھا۔ تو یہ اللہ کے دین میں بدعت ہے،اور آپ کسی مشرک کو نہیں پائیں گے مگر وہ اللہ کے نقص کو بیان کرنے والا ہو گا اور کسی بدعتی کو نہیں پائیں گے مگر وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عیب جوئی کرنے والا ہو گا.
پھر وہ کہتا ہے کہ: "اور منجملہ منکر بدعات میں سے کہ جس کو لوگوں نے ایجاد کر لیا ہے، ماہ ربیع الاول میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کا جشن منانے کی بدعت ہے اور اس جشن منانے میں لوگوں کی مختلف قسمیں ہیں: کچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تک محدود رکھتے ہیں یعنی وہ اس دن جمع ہو کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کا قصہ پڑھتے ہیں، یا پھر اس میں اسی مناسبت سے تقاریر ہوتی اور قصیدے پڑھے جاتے ہیں. اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کھانے تیار کرتے اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں.اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ جشن مساجد میں مناتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے گھروں میں مناتے ہیں۔اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس جشن کو مذکورہ بالا اشیاء تک ہی محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس اجتماع اور جشن کو حرام کاموں پر مشتمل کر دیتے ہیں جس میں مرد و زن کا گھل مل جانا، اور رقص و سرور اور موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں، اور حرام اعمال بھی انجام دئیے جاتے ہیں، مثلا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے استغاثہ اور مدد طلب کرنا، اور انہیں پکارنا، اور دشمنوں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مدد مانگنا، وغیرہ اعمال شامل ہوتے ہیں۔
جشن میلاد النبی کی جتنی بھی انواع و اقسام ہیں، اور اسے منانے والوں کے مقاصد، چاہیں جتنے بھی مختلف ہوں، بلا شک و شبہ یہ سب کچھ حرام اور بدعت اور دین اسلام میں ایک نئی ایجاد ہے، جو فاطمی شیعوں نے دین اسلام اور مسلمانوں میں فساد ایجاد کرنے کے لیے پہلی تینوں افضل صدیاں گزر جانے کے بعد ایجاد کی۔
اور مسلمان شخص کو تو چاہیے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کا احیاء کرے اور جتنی بھی بدعات ہیں انہیں ختم کرے، اور کسی بھی کام کو اس وقت تک انجام نہ دے جب تک اسے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم نہ ہو جائے۔ قرآن اور حدیث کی رو سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ "عید میلاد النبی”  بدعات میں سے ایک بد ترین بدعت ہے، بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ قرآن اور حدیث میں اگر عید میلاد کا حکم نہیں ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں ہے، حالانکہ یہ غلط خیال ہے کیونکہ عید میلاد کی ممانعت اور اس کا بطلان قرآن اور حدیث دونوں میں موجود ہے۔
لیکن قرآن اور حدیث کی یہ دلیلیں دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرآن اور حدیث میں بعض چیزوں کو عام اور کلی طور پر باطل قرار دیا گیا ہے اور کسی خاص چیز کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کی اس کی ممانعت قرآن اور حدیث میں نہیں ہے۔
اسی طرح عید میلاد بھی قرآن اور حدیث کی رو سے باطل ہے۔ چنانچہ خداوند کا ارشاد ہے:
"آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے”۔(سورہ مائدہ:5)
یعنی اب اگر کوئی دین میں کسی نئی چیز کا دعویٰ کرے گا تو وہ باطل ہے، عید میلاد بھی دین میں نئی چیز ہے، لہٰذا قرآن کی اس آیت کی روشنی میں باطل ہے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ "جس نے بھی ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ مردود ہے”۔
(بخاری: کتاب الصلح) حدیث نمبر2697 )
اور عید میلاد بھی دین میں نئی چیز ہے لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں باطل ہے۔
نیز خداوند کا یہ بھی ارشاد ہے کہ: "اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو "۔(سورہ حجرات: 1)
یعنی دین میں جس عمل کا حکم اللہ اور اس کے رسول نہ دیں اسے مت انجام نہ دو، عید میلاد منانے کا حکم نہ اللہ نے دیا نہ اس کے رسول نے لہٰذا قرآن کی اس آیت میں عید میلاد سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول نے فرمایا:
"دین میں نئی چیزیں مت ایجاد کرو "۔(أبو داؤد:کتاب السنة:باب فی لزوم السنة،4607)
یعنی دین میں جس عمل کا حکم نہ ہو اسے مت کرو، عید میلاد منانے کا حکم دین میں نہیں ہے لہٰذا اس حدیث میں عید میلاد سے منع کیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد قرآن اور حدیث کی روشنی میں باطل اور ممنوع ہے، لہٰذا اب یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عید میلاد منانے کا حکم نہیں ہے تو اس سے منع بھی نہیں کیا گیا ہے کیونکہ قرآن اور حدیث سے اس کا بطلان اور اس کی ممانعت پیش کی جا چکی ہے۔
واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم (ص)سے محبت کا تعلق ہے تو اس سے کسی کو انکار نہیں، بلکہ حدیث رسو ل خدا (ص) کے مطابق ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ کے رسول اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں، لیکن محبت کا طریقہ کتاب اور سنت سے ثابت ہونا چاہیے۔

خلاصہ:
ابن تیمیہ، وہابی مفتی بن باز اور صالح فوزان کے کلام سے استفادہ ہوتا ہے کہ رسول خدا کی ولادت کا جشن منانا بدعت ہے، کیونکہ:
اولاً: خود رسول خدا نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اپنے خطبوں وغیرہ میں بھی اس کے بارے میں کچھ بیان نہیں کیا۔
ثانیاً: خلفاء، صحابہ اور تابعین نے بھی کسی کی ولادت کا جشن نہیں منایا۔
ثالثاً: اس طرح کے جشن یہودی اور مسیحی لوگ مناتے ہیں اور اگر کوئی مسلمان اسطرح کے جشن منائے تو وہ بھی یھودیوں اور مسیحیوں کے مشابہہ ہو جائے گا اور اسکا کام بدعت اور حرام ہو جائے گا۔

شبہے کا جواب:
ابھی تک اصل شبہے کو ابن تیمیہ کی زبان سے اور بن باز اور صالح فوزان کے فتوے اور ولادت کے جشن کے بدعت ہونے کے بارے میں ان کے دلائل کو بیان کیا۔ اب ہم اس شبہے کے جواب اور اس کے فرعی مسائل کو بیان کرتے ہیں:

پہلا جواب:
رسول خدا نے اپنی ولادت کی سالگرہ پر قربانی کی۔
بن باز اور صالح فوزان کے فتوے میں ولادت کے جشن منانے کے حرام ہونے کی یہ دلیل ذکر ہوئی ہے کہ اس جشن کو خود رسول ؐخدا (ص) اور صحابہ نے نہیں منایا: لأن الرسول صلی اللّٰه عليه و سلم لم يفعله و لا خلفاؤه الراشدون و لا غيرهم من الصحابة۔
بہت سے اقوال اور افعال کو وہابیوں کی طرف سے بدعت ثابت کرنے کے لیے یہی معیار اور میزان بار بار بیان ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک یہی مورد بحث مسئلہ ہے۔
اس شبھے کے جواب میں کہنا چاہیے کہ اتفاقاً خود رسول خدا نے بھی اپنی ولادت کی سالگرہ کے موقع پر دوبارہ عقیقہ کے جشن کو منایا تھا اور یہ بات اہل سنت کی معتبر روایات میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ جلال الدین سیوطی عالم اہل سنت نے اسی روایت کی بنیاد پر رسول خدا  (ص)کی ولادت کے جشن منانے کے مستحب ہونے پر استدلال کیا ہے۔
سیوطی نے ابن حجر عسقلانی کے فتوے اور اس کا سند کے طور پر حضرت موسیٰؑ کی نجات پر یھودیوں کا شکرانے کے طور پر روز عاشورا روزہ رکھنے کے بارے میں روایت کو بیان کرنے کے بعد، خود بھی اسی روایت کی بناء پر رسول خدا (ص)کی ولادت کے جشن کے مستحب ہونے پر استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ:
قلت: و قد ظهر لی تخريجه علی أصل آخر و هو ما أخرجه البيهقی عن أنس أن النبی صلی اللّٰه عليه و سلّم عق عن نفسه بعد النبوة مع أنه قد ورد أن جده عبد المطلب عق عنه فی سابع ولادته و العقيقة لا تعاد مرة ثانية، فيجعل ذلك علی أن الذی فعله النبی صلی اللّٰه عليه و سلّم إظهار للشكر علی إيجاد اللّٰه إياه رحمة للعالمين و تشريع لأمته كما كان يصلی علی نفسه لذلك فيستحب لنا أيضاً إظهار الشكر بمولده بالاجتماع و إطعام الطعام و نحو ذلك من وجوه القربات و إظهار المسرات.
میں کہتا ہوں کہ: میری نظر میں رسول خدا کی ولادت کا جشن منانے کے لیے ایک دوسری روایت ہے، اور وہ، وہ روایت ہے کہ جس کو بیہقی نے انس سے روایت کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے مقام نبوت ملنے کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ (قربانی ) کیا، حالانکہ روایات کے مطابق عبد المطلب نے رسول خدا (ص) کی ولادت کے تیسرے دن بعد ان کے لیے عقیقہ کیا تھا، حالانکہ عقیقہ ایک بار ہی کیا جاتا ہے لیکن اس کے با وجود بھی رسول خدا (ص) نے خداوند کا شکر اور حمد کرنے کے لیے دوسری مرتبہ عقیقہ کیا اور انھوں نے اپنے اس کام سے چاہا ہے کہ اپنی امت کو بھی یہ کام کرنے کی طرف متوجہ کریں، جس طرح کہ وہ خود اپنے آپ پر درود بھیجا کرتے تھے۔
پس یہ کام ہمارے لیے بھی مستحب ہے کہ ہم بھی رسول خدا (ص)کے وجود جیسی عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے ہر سال جمع ہو کر ان کا ذکر کریں، ان کی شان بیان کریں، ان پر درود و صلوات پڑھیں، فقراء کو اس عظیم دن کھانا کھلائیں اور ان کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں اور اپنے اس کام سے دنیا کو بھی رسولؐ خدا اور ان کے ایام ولادت کی طرف متوجہ کرائیں اور ان کے علاوہ دوسرے خوشی کے کام بھی اس دن انجام دیں۔
(الحاوی للفتاوی، ج 1، ص 188)
سیوطی کے کلام میں یہ نکتہ مہم اور قابل توجہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ: رسولؐ خدا نے عقیقہ کا جشن دو وجہ سے برپا کیا، ایک یہ کہ: خداوند کا شکر ادا کرنے اور دوسرا یہ کہ: اپنی امت کے لیے بھی اس کام کے شرعی طور پر جائز ہونے کو بیان کرنے کے لیے انجام دیا:
إظهار للشكر علی إيجاد اللّٰه إياه رحمة للعالمين و تشريع لأمته۔
یہ کہہ کر سیوطی نتیجہ نکالتا ہے کہ اس معیار کے مطابق رسولؐ خدا کی ولادت کا جشن منانا مستحب ہے:
فيستحب لنا أيضاً إظهار الشكر بمولده.حلبی نے بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد وضاحت کی ہے کہ سیوطی نے بھی اس روایت کو رسولؐ خدا کی ولادت کا جشن منانے کے لیے ایک معیار اور بنیاد کے طور پر قرار دیا ہے:
و الحافظ السيوطی … و جعله أصلا لعمل المولد قال لأن العقيقة لا تعاد مرة ثانية فيحمل ذلك علی أن هذا الذي فعله النبی صلي اللّٰه عليه و سلم إظهارا للشكر علی إيجاد اللّٰه تعالی إياه رحمة للعالمين وتشريعا لأمته …
الحلبی، علی بن برهان الدين (متوفی1044هـ)، السيرة الحلبية فی سيرة الأمين المأمون، ج 1، ص 130، ناشر: دار المعرفة – بيروت-
رسولؐ خدا کے عقیقہ کرنے والی روایت اہل سنت کی کتب میں نقل ہوئی ہے۔ اور چند علمائے اہل سنت نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔
مقدسی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد، اس روایت کو صحیح بھی کہا ہے، اس نے کہا ہے کہ:
أخبرنا محمد بن أحمد بن نصر بأصبهان أن الحسن بن أحمد الحداد أخبرهم و هو حاضر ابنا أبو نعيم ابنا سليمان بن أحمد الطبراني ثنا أحمد بن مسعود هو المقدسي قثنا الهيثم بن جميل قثنا عبد اللّٰه بن المثنی عن ثمامة بن عبد اللّٰه بن أنس عن أنس أن النبی صلی اللّٰه عليه و سلم عق عن نفسه بعد ما بعث نبيا إسناده صحيح۔
المقدسي الحنبلي، ابو عبد الله محمد بن عبد الواحد بن أحمد (متوفی643هـ)، الأحاديث المختارة، ج 5، ص 204، تحقيق عبد الملك بن عبد الله بن دهيش، ناشر: مكتبة النهضة الحديثة – مكة المكرمة،
ابو بکر ہیثمی نے بھی کہا ہے کہ:
و عن أنس أن النبي صلي اللّٰه عليه و سلم عق عن نفسه بعد ما بعث نبيا رواه البزار و الطبراني في الأوسط و رجال الطبراني رجال الصحيح خلا الهيثم بن جميل و هو ثقة۔
انس سے روایت ہوئی ہے کہ رسولؐ خدا نے اپنی بعثت کے بعد اپنی طرف سے اپنے لیے عقیقہ کیا تھا۔ اس روایت کو بزار اور طبرانی نے کتاب اوسط میں نقل کیا ہے اور طبرانی کی روایت کے راوی وہی صحیح بخاری والے راوی ہیں، غیر از ہیثم بن جمیل کہ وہ بھی ثقہ ہے۔
الهيثمی، ابوالحسن علی بن أبی بكر (متوفی807 هـ)، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ج 4، ص 59، ناشر: دار الريان للتراث/ دار الكتاب العربي – القاهرة، بيروت –

دوسرا جواب:
صحابہ کرام رسولؐ خدا  کی ولادت اور بعثت جیسی نعمت کے شکرانے کے طور پر ہر پیر والے دن روزہ رکھتے تھے۔
یہ مطلب صحیح مسلم کی روایت میں آیا ہے کہ جب رسولؐ خدا سے پیر والے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو، آپؐ نے فرمایا کہ: یہ وہ دن ہے کہ جس دن میں دنیا میں آیا تھا اور اسی دن میں رسالت کے لیے بھی مبعوث ہوا تھا۔
حدثنا محمد بن الْمُثَنَّی وَ مُحَمَّدُ بن بَشَّارٍ و اللفظ لابن الْمُثَنَّی قالا حدثنا محمد بن جَعْفَرٍ حدثنا شُعْبَةُ عن غَيْلَانَ بن جَرِيرٍ سمع عَبْدَ اللَّهِ بن مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ عن أبی قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رضی اللّٰه عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللّٰه عليه و سلم سُئِلَ عن صَوْمِهِ قال فَغَضِبَ رسول اللَّهِ صلی اللّٰه عليه و سلم فقال عُمَرُ رضی اللّٰه عنه رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِالْإِسْلَامِ دِينًا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَ بِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً … قال وَ سُئِلَ عن صَوْمِ يَوْمٍ وَ إِفْطَارِ يَوْمٍ قال ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عليه السَّلَام قال وَ سُئِلَ عن صَوْمِ يَوْمِ الإثنين قال ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فيه وَ يَوْمٌ بُعِثْتُ أو أُنْزِلَ عَلَيَّ فيه ۔۔۔
ابو قتادہ انصاری کہتا ہے کہ: رسولؐ خدا سے ان کے روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؐ کو غصہ آ گیا۔ عمر نے کہا ہم راضی ہیں کہ خداوند ہمارا پروردگار ہو، اور اسلام ہمارا دین ہو، اور محمد (ص) ہمارے رسول ہوں اور ہماری بیعت، ہی صحیح بیعت ہو۔
راوی کہتا ہے کہ: رسولؐ خدا سے سوال ہوا کہ کیا ہم ایک دن روزہ رکھ سکتے اور ایک دن افطار کر سکتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ: اس طرح سے میرے بھائی حضرت داودؑ روزہ رکھا کرتے تھے۔ پھر آپؐ سے پیر والے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال ہوا تو، آپؐ نے فرمایا کہ: یہ وہ دن ہے کہ جس دن میں دنیا میں آیا تھا اور اسی دن میں رسالت کے لیے بھی مبعوث ہوا تھا، یا اس دن مجھ پر وحی نازل ہوئی تھی۔
صحيح مسلم، ج 2، ص 819
سنن کبری بیہقی ج 4 ص 286
سنن کبری نسائی ج 5 ص146
اس روایت میں وضاحت ہوئی ہے کہ رسولؐ خدا سے پیر والے دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؐ نے دو مناسبتوں کی وجہ سے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید اور تائید کی ہے۔
عبدری مالکی نے اس روایت کے ایک حصہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد، اس دن کے احترام کو ماہ ربیع الاول کا احترام کہا ہے اور وہ کہتا ہے کہ:
فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذی ولد فيه فينبغی أن نحترمه حق الاحترام و نفضله بما فضل اللّٰه به الأشهر الفاضلة۔
اس دن کا احترام، یہ اصل میں اس مہینے کا احترام ہے کہ جس مہینے میں رسولؐ خدا کی ولادت ہوئی تھی۔ پس مناسب ہے کہ ہم اس مہینے کا احترام اور احترام کے حق کو ادا کریں اور اس مہینے کو دوسرے مہینوں پر برتری دیں، اس وجہ سے کہ خداوند نے بھی اس مہینے کو برتری دی ہے۔
المدخل ج 2،ص 3، أبو عبد الله محمد بن محمد بن محمد العبدری الفاسی المالكی الشهير بابن الحاج الوفاة: 737هـ، دار النشر: دار الفكر-
لہٰذا اس تفصیل کی روشنی میں ان لوگوں کی بات باطل ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ رسولؐ خدا  کی ولادت کے دن جشن اور عید منانا بدعت اور باطل ہے کیونکہ خود رسول خدا (ص) اور صحابہ نے اس دن جشن نہیں منایا تھا۔

تیسرا جواب:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا جشن منانا، یہ قرآن کے مطابق رسول خدا کے وجود جیسی عظیم نعمت کے شکر ادا کرنے کا جشن ہے۔
خداوند نے انسان کو بے شمار ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت رسولؐ خدا کا وجود مبارک ہے کہ جن کی برکت سے انسانیت نے گمراہی، جہالت کفر، شرک اور بت پرستی سے نجات پائی ہے۔
اس مطلب کی روشنی میں مسلمانوں کا رسولؐ خدا  کی ولادت کا جشن منانا، یہ در حقیقت رسولؐ خدا کے مبارک وجود جیسی عظیم نعمت کے شکر بجا لانے کا جشن ہے۔اس کے علاوہ عقلی لحاظ سے بھی نعمت کا شکر ادا کرنا ایک اچھا اور پسندیدہ کام ہے کہ کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا انسان اس عقلی بات کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا نعمت کا شکر ادا کرنا بھی وہابیت کی نظر میں بدعت ہے؟
ابن حجر عسقلانی عالم اہل سنت نے رسولؐ خدا کی ولادت کو خداوند کی طرف سے ایک بزرگ اور عظیم نعمت کہا ہے اور واضح الفاظ میں رسولؐ خدا کی ولادت کے جشن کو اس عظیم نعمت کے شکر ادا کرنے کا جشن کہا ہے۔
ابن حجر کے کلام میں یہ نکتہ مہم ہے کہ اس نے رسولؐ خدا کی ولادت کے جشن منانے کے جائز ہونے کے فتوے کی دلیل صحیح روایت سے لائی ہے کہ جس میں رسولؐ خدا نے یہودیوں کے فرعون کے غرق ہونے اور حضرت موسیٰؑ کے نجات پانے پر شکرانے کے طور پر جشن منایا ہے۔ ابن حجر نے اس صحیح روایت سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر ان جیسے مراسم کو شکر ادا کرنے کی نیت سے انجام دیا جائے تو جائز ہے۔
ان کے فتوے کی عبارت سیوطی کی نقل کے مطابق یہ ہے:
و قد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل أحمد بن حجر عن عمل المولد فأجاب بما نصه: أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة و لكنها مع ذلك قد اشتملت علي محاسن و ضدها، فمن تحری فی عملها المحاسن و تجنب ضدها كان بدعة حسنة و إلا فلا ۔
شیخ الاسلام، حافظ دوراں، ابو الفضل احمد ابن حجر سے رسول خدا کی ولادت کا جشن منانے کے بارے میں سوال ہوا، تو انھوں نے جواب دیا کہ:
ولادت کا جشن منانا یہ ایک نیا کام ہے کہ گذشتہ زمانے کی تیسری صدی کے صالحان سے نقل نہیں ہوا، لیکن اس کے با وجود اس جشن میں اچھے اور برے کام انجام دئیے جاتے ہیں، پس اگر کوئی نیک اور اچھے کام انجام دے اور بد اور برے کاموں سے دوری اختیار کرے تو، اس کا کام نیک اور ٹھیک ہو گا۔
وہ اس فتوے کے بعد اپنے کلام کے صحیح ہونے پر صحیح روایت سے سند کے طور پر دلیل لایا ہے اور کہتا ہے کہ:
قال: و قد ظهر لی تخريجها علی أصل ثابت و هو ما ثبت فی الصحيحين من أن النبی صلی اللّٰه عليه و سلّم قدم المدينة فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء فسألهم فقالوا هو يوم أغرق الله فيه فرعون و نجی موسی فنحن نصومه شكراً للّٰه تعالی۔
فيستفاد منه فعل الشكر للّٰه علی ما من به فی يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة، و يعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة، و الشكر للّٰه يحصل بأنواع العبادة كالسجود و الصيام و الصدقة و التلاوة، و أی نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبی نبی الرحمة فی ذلك اليوم، و علی هذا فينبغی أن يتحری اليوم بعينه حتی يطابق قصة موسی فی يوم عاشوراء۔۔۔
و أما ما يعمل فيه فينبغی أن يقتصر فيه علی ما يفهم الشكر للّٰه تعالی من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة و الإطعام و الصدقة و إنشاد شيء من المدائح النبوية و الزهدية المحركة للقلوب إلی فعل الخير و العمل للآخرة۔۔۔
میرے لیے واضح ہوا ہے کہ ولادت کے جشن پر اصل دلیل وہ ہے کہ جو صحیحین میں ذکر ہوا ہے اور وہ یہ ہےکہ جب رسولؐ خدا مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورا کے دن روزہ رکھتے ہیں تو رسولؐ خدا نے ان سے اس کام کی دلیل پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے کہ جب خداوند نے فرعون کر غرق کیا اور حضرت موسیٰؑ کو نجات دی۔ پس ہم اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔
ابن حجر نے کہا ہے کہ: اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند کے ایک خاص دن میں انسان پر لطف و کرم کرنے کا شکر ادا کرنا واجب ہے، جیسے خداوند کا نعمت عطا کرنا یا کسی سے عذاب کو دور کرنا۔ نعمت خدا کا یہ شکر، ہر سال کے اور اس خاص دن کے شکر ادا کرنے کی طرف پلٹتا ہے۔ خداوند کا شکر مختلف عبادتوں جیسے سجدہ کرنا، روزہ رکھنا، صدقہ دینا، قرآن کی تلاوت کرنا وغیرہ کے ساتھ ادا ہوتا ہے۔ اور کون سی نعمت اس خاص دن، رسولؐ خدا کے وجود سے بڑھ کر ہو سکتی ہے؟ لہٰذا اس دن خداوند کا شکر ادا کرنا زیادہ مناسب ہے۔
اسی وجہ سے وہ اعمال جو اس خاص دن انجام دئیے جاتے ہیں، ان سے خداوند کا شکر ادا ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، جیسے قرآن کی تلاوت کرنا، محتاجوں کو کھانا کھلانا، صدقہ دینا، رسول خدا کی شان میں اشعار اور منقبت پڑھنا اور وہ کام کہ جن سے انسان کا دل نیکی اور آخرت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
السيوطی،جلال الدين أبو الفضل عبد الرحمن بن أبی بكر (متوفی911هـ)، الحاوی للفتاوی فی الفقه و علوم التفسير و الحديث و الاصول و النحو و الاعراب و سائر الفنون، ج1، ص 188، تحقيق: عبد اللطيف حسن عبد الرحمن، ناشر: دار الكتب العلمية – بيروت، الطبعة: الأولیٰ،

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے