1. توحید، اسلامی اعتقادات میں سب سے بنیادی عقیدہ ہے جس کے معنی خدا کو یکتا اور بے مثل مانتے ہوئے اس کائنات کی خلقت میں کسی اور کو خدا کا شریک قرار نہ دینا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ نے جب لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کیا تو آپؐ کی ابتدائی تعلیمات بھی خدا کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو خدا کا شریک قرار دینے سے انکار پر مشتمل تھی۔ قرآنی آیات اور معصومین کی احادیث میں توحید پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور قرآن کی ایک سورت، سورہ توحید بھی اسی موضوع سے مربوط ہے۔

اسلامی تعلیمات میں توحید کو شرک کے مقابلے میں قرار دیتے ہوئے مسلمان متکلمین اس کے کئی مراتب بیان کرتے ہیں: توحید ذاتی؛ خدا کی یکتایی پر ایمان رکھنا، توحید صفاتی خدا کی ذات اور صفات کے ایک ہونے پر عقیدہ رکھنا، توحید افعالی یعنی خداوندعالم کسی کا محتاج نہیں ہے اور توحید عبادی یعنی صرف خدا ہی عبادت کے لایق اور سزاوار ہے۔ توحید کے ان چار مرات میں پہلا مرتبہ توحید ذاتی اور سب سے اعلی مرتبہ توحید افعالی ہے۔

قرآن کریم اور احادیث معصومین اسی طرح مسلمان فلاسفہ اور متکلمین نے توحید کے اثبات میں مختلف دلائل اور براہین پیش کئے ہیں۔ برہان تمانع، برہان بعثت انبیاء اور برہان تعین وغیرہ منجملہ ان دلائل میں سے ہیں۔

بعض اہل سنت منجملہ ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوہاب اور عبد العزیز بن باز وغیرہ شفاعت، پیغمبران اور اولیائے الہی سے ان کی رحلت کے بعد توسل کرنے اور بعض دیگر امور کو شرک اور توحید پر عقیدے کے منافی قرار دیتے ہیں۔ لیکن شیعہ قرآن کریم کی مختلف آیات کی روشنی میں ان کے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن میں جس توسل سے منع کی گئی ہے وہ بت پرستوں کا بتوں سے متوسل ہونا ہے اور یہ چیز پیغمبر اکرمؐ سے متوسل ہونے سے بالکل متفاوت ہے؛ کیونکہ شیعہ بت پرستوں کے برخلاف پیغمبر اکرمؐ اور اولیاء الہی کو اس عالم کا رب اور حاکم نہیں جانتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ پیغمبر اکرمؐ اور اولیائے الہی سے متوسل ہو کر در حقیقت ان کے ذریعے خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں نہ یہ کہ ان ہستیوں کو خدا یا رب قرار دیتے ہیں۔

شیعہ علماء نے اپنی تصانیف میں توحید پر سیر حاصل بحث کی ہیں، ان تصانیف میں سے بعض کتابیں مستقل طور پر توحید کے اوپر لکھی گئی ہیں جبکہ بعض تصانیف میں دوسرے ابحاث کے ضمن میں توحید پر بھی بحث کی ہیں۔ شیخ صدوق کی کتاب التوحید، علامہ طباطبایی کی گوہر مراد اور الرسائل التوحیدیہ نیز مرتضی مطہری کی کتاب “توحید” انہی تصانیف میں سے ہیں۔

مفہوم شناسی

توحید، خدا کی یکتایی اور وحدانیت کے اقرار کو کہا جاتا ہے جو اسلام کے بنیادی اعتقادات میں سب سے اہم عقیدہ ہے۔[1] مسلمان اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کائنات کا بنانے والا صرف خدا کی ذات ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔[2] پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین منجملہ امام علیؑ اور امام صادقؑ سے منقول احادیث میں توحید سے مراد خدا کی وحدانیت پر گواہی دینا ہے جسے “لا الہ الّا اللّہ وحدَہ لاشریک لہ” اور اس جیسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔[3]

علم کلام میں لفظ توحید کو خدا کی وحدانیت کے ساتھ ساتھ خدا کے صفات اور افعال سے مربوط مباحث کی طرف اشارہ کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ امام صادقؑ اور امام رضاؑ نے توحید سے مربوط سوالات کے جواب میں بعض کلامی مباحث منجملہ خدا سے انسانی صفات کی نفی کرنے کی طرف اشارہ فرمائے ہیں۔[4]

علم کلام، عرفان اور فلسفہ کے منہج تفکر میں اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے توحید کے بارے میں بھی تین مختلف نطقہ نظر پائے جاتے ہیں: علم کلام میں خدا کی وحدانیت کے اقرار کو توحید کہا جاتا ہے، جبکہ فلسفی اصطلاح میں خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہوئے اس پر ایمان لانے کو توحید کہا جاتا ہے اسی طرح عرفانی اصطلاح میں خدا کی وحدانیت کو دل و جان سے درک کرنا اور اس تک پہچنے کو توحید کہا جاتا ہے۔[5] فلسفے میں واجب الوجود کی وحدت کو ثابت کرتے ہیں جبکہ عرفان میں مفہوم کی نہیں بلکہ توحید کے مصداق کی بات ہوتی ہے جو کہ خدا ہے اور اس دنیا میں ایک ہی موجود ہے اور وہ خدا ہے باقی سارے موجودات اسی ذات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔[6] دوسرے لفظوں میں فلاسفہ واجب الوجود کی وحدانیت کو ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں جبکہ عرفاء توحید کی حقیقت پر پہنچنے کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ حکمت متعالیہ جو کہ ملا صدرا سے منسوب ہے کو قرآن، عرفان اور برہان کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے جس میں عرفانی شہود کو فلسفی دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے۔[7]

اسلام میں توحید کا مقام

اسلامی تعلیمات کا بنیادی محور اور اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرنے والی چیز اسلام میں توحید کا عقیدہ ہے۔[8] قرآن میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ تمام انبیاء توحید کا پیغام لے کر آئیں ہیں۔[9] اگر چہ قرآن میں لفظ توحید نہیں آیا لیکن توحید کے اثبات اور شرک کی نفی میں بہت ساری آیات موجود ہیں۔[10] یہاں تک کہ ملاصدرا نے اپنی تفسیر میں توحید کو قرآن کا مقصد اصلی قرار دیا ہے۔[11]

پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ جب مکہ میں اپنی رسالت کا باقاعدہ اعلان کر کے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کیا تو آپ کی رسالت کے ابتدائی تعلیمات بھی خدا کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو خدا کا شریک قرار دینے سے انکار پر مشتمل تھی۔[12] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے اسلام کی تبلیغ کیلئے مختلف علاقوں میں بھیجے گئے نمائندے بھی لوگوں کو خدا کی وحدانیت کو قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔[13] اسلامی تعلیمات میں توحید کے عقیدے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علما مسلمانوں کو “اہل التوحید” کے نام سے یاد کرتے ہوئے[14] توحید کو مسلمانوں کی علامت قرار دیتے ہیں۔[15] امام علیؑ، توحید اور خدا کی وحدانیت پر عقیدہ رکھنے کو خدا کی معرفت کی اساس اور بنیاد قرار دیتے ہیں۔[16]

توحید اور خدا کی وحدانیت کو قرآن میں مختلف تعابیر کے ساتھ مختلف جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے، منجملہ ان موارد میں سورہ توحید ہے جس میں خدا کو “احد” یعنی یکتا قرار دیا گیا ہے۔[17] خدا کے سوا دوسرے کسی معبود کا انکار، خدا کی یکتائی، تمام مختلوقات کیلئے ایک خدا کا تصور، تمام کائنات کا خدا کے اختیار میں ہونا، متعدد خداوں کے قائلین کی مذمت، ایک خدا پر عقیدہ رکھنے کی تأکید، تثلیث اور تین خدا پر ایمان رکھنے والوں کے دلائل کو رد کرنا اور خدا کیلئے ہر قسم کی مثل اور مماثلت سے انکار وغیره ایسے مفاہیم ہیں جو قرآن مجید میں توحید اور خدا کی وحدانیت کے باب میں بیان ہوئے ہیں۔ [18] قرآن کریم کی بعض وہ آیات جو بلواسطہ یا بلاوسطہ توحید پر دلالت کرتی ہیں درج ذیل ہیں:
• قُل هُوَ اللهُ أحَد (ترجمہ: کہو خدا ایک ہے۔)[19]

• لا إلٰه إلّا الله (ترجمہ: خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔)[20]

• لا إلٰه إلّا هو (ترجمہ: اس(خدا) کے سوا کوئی معبود نہیں۔)[21]

• إلٰهُکُم إلٰهٌ واحِد (ترجمہ: بتحقیق تمہارا معبود خدائے واحد ہے۔)[22]

• ما مِن إلٰهٍ إلّا الله (ترجمہ: خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔)[23]

توحید کے مراتب

اکثر متکلمین، عرفاء اور مسلمان فلاسفہ قرآن کریم و سنت کی روشنی میں توحید کیلئے مراتب کے قائل ہیں جن میں سے پہلے مرتبے کو توحید ذاتی دوسرے مرحلے کو توحید صفاتی تیسرے مرحلے کو توحید افعالی اور سب سے اعلا مرتبے کو توحید عبادی سے تعبیر کرتے ہیں۔[24]

توحید ذاتی

توحید کے مراتب میں سے سب سے پہلا مرتبہ توحید ذاتی کا ہے اور خدا کے ایک ہونے کے اعتقاد کو کہتے ہیں نیز ذات خدا میں تعدد اور دوگانگی نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی مثل اور نظیر ہے ۔[25]

روایات میں توحید ذاتی دو معنی میں بیان ہوئی ہے :پہلا: خدا کا بسیط ہونا اور اس کیلئے کسی جزو کا نہ ہونا ہے اسے “احدیت” کہتے ہیں ۔دوسرا:مثل اور نظیر نہ ہونے کو “وحدانیت ذات” کہتے ہیں۔[26]

علم کلام اور فلسفے میں بھی “توحید ذاتی ” دو معنی میں استعمال ہوئی ہے :
پہلا :خدا ایک ہے اور اس کی نظیر نہیں اور اس کیلئے دوسرا ہونا قابل فرض نہیں ہے ۔متکلمین اسے “توحید ذاتی” کہتے ہیں اور اسکے ذریعے ہر قسم کی شباہت،مثل اور نظیر کی ذات خدا سے نفی کرتے ہیں۔توحید کی اس قسم کو “توحید واحدی” کہتے ہیں۔دوسرے الفاظ میں وجوب وجود میں واحد و احد ہونا،ایک وجود کو ضروری سمجھنا اور ہر قسم کے شرک شباہت اور نظیر کی نفی کرنا “توحید واحدی” ہے ۔ دوسرا :ذات خدا اجزا سے مرکب نہیں وہ بسیط ہے اس قسم کی توحید کو بھی “توحید احدی” کہا گیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں خدا کے متعلق خارجی، عقلی اور وہمی ہر قسم کی ترکیب کی نفی کرنا اور خدا وند متعال کی بساطت کو ثابت کرنا “توحید احدی” ہے۔

قرآن پاک کے سورۂ اخلاص کی ابتدائی آیت میں لفظ “احد” کے ساتھ ذات خدا کی “توحید احدی” یعنی بسیط ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور سورۂ کی آخری آیت وَلَمْ یکن لَّهُ کفُوًا أَحَدٌ کے ساتھ “توحید واحدی” اور خدا کے ہر قسم کے شریک ہونے کی نفی کی گئی ہے۔[27]

توحید صفاتی

خدا کی صفات کا عین ذات ہونا “توحیدد صفاتی” کہلاتا ہے ۔ شیعہ مذہب کے مطابق صفات خداوند کی حقیقت اس کی ذات سے جدا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ ذات اس صفت سے متصف ہوتا ہے بلکہ خدا کی تمام صفات ایک دوسرے کا عین ہے اور اس کی عین ذات ہیں بلکہ اس کا وجود اس کا علم ہے اس کی قدرت اور دیگر صفات ذاتی ہیں اور تمام صفات ایک دوسرے کا عین ہیں ۔

توضیح:مخلوقات میں جب انسان ارادہ نہیں کرتا ہے تو وہ مرید نہیں ہوتا ہے۔ یعنی پہلے انسان کا نفس ہے اور اس کا ارادہ نہیں ہے پھر اس کا ارادہ پیدا ہوتا ہے تو وہ صاحب ارادہ ہوتا ہے ۔ لیکن خدا ایسا نہیں ہے کسی چیز کا اس میں اضافہ نہیں ہوتا کہ کہا جائے کہ یہ صفت اس میں پیدا ہوئی ہے ۔[28]

حضرت امام علی ؑ سے خطبے میں منقول ہے:خدا کی ذات صفات کو قبول کرنے والی نہیں ہے ۔ [29] اسی نکتے کی بیشتر تفصیل نہج البلاغہ میں حضرت علی ؑ کے “توحیدیہ” نامی خطبے میں مذکور ہوئی ہے :- “دین میں پہلا قدم معرفت خدا ہے ، اس معرفت کا کمال اس کا اعتقاد رکھنا ہے ۔اس کے ایک ہونے کا اعتقاد رکھنے سے خدا کی توحید اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔توحید اخلاص کے سائے میں مکمل ہوتی ہے اور اخلاص کامل کا لازمہ ذات باری تعالی سے صفات کی نفی کرنا ہے ۔”[30]

متکلمین میں سے اشاعرہ اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا کی صفات اس کی ذات سے جدا ہیں اسی حال میں وہی صفات اس کی ذات کی مانند قدیم ہیں ۔اسی نظرئے کو “قدمائے ثمانیہ” کہا جاتا تھا۔یہ نظریہ ذاتی طور پر خود چند خداؤں کو مستلزم ہے جو عقیدۂ توحید کی اساس کے ساتھ متعارض ہے ۔[31]

توحید افعالی

توحید افعالی سے یہ مراد ہے کہ خدا اپنے تمام کام انجام دینے میں کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں ہے اور اپنے ہر کام کو انجام دینے میں خود مختار اور مستقل ہے :

توحید افعالی کی بنا پر کائنات میں کوئی موجود مؤثر ہونے اور کسی کام کے انجام دینے میں کسی قسم کی تاثیر نہیں رکھتا ہے مگر صرف وہ وسیلہ اور قدرت مؤثر ہو سکتا ہے جسے خدا نے قدرت دی ہو ۔ تمام افعال ،حرکات، مؤثر ہونا یا متاثر ہونا خدا کی طرف ہی منتہی ہوتے ہیں ۔جس طرح وہ اپنی ذات میں کوئی شریک نہیں رکھتا ہے اسی طرح خالقیت،ربوبیت، مالکیت اور حاکمیت تکوینی کی فاعلیت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں رکھتا ہے ۔

توحید افعالی علیت اور معلولیت کے قانون یا اسباب کے مؤثر ہونے کی نفی کرنے کے معنی نہیں ہے ۔شیعہ نکتہ نگاہ کے مطابق توحید افعالی کا یہ معنی نہیں ہے کہ خداوند مستقیم اور کسی واسطے کے بغیر کسی چیز کا ایجاد کرتا ہے اور تمام علل اور اسباب کی جگہ خود لیتا ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی چیز ایجاد میں کسی چیز کی محتاج ہوتی ہے خدا اس سبب کو ایجاد اور خلق کرتا ہے اور وہ اس کام میں اپنی ذات کے علاوہ کسی اور چیز کا محاتج نہیں ہوتا ہے ۔

توحید افعالی توحید خالقیت ، توحید ربوبیت ،توحید تشریعی اور توحید تکوینی کی طرف تقسیم ہوتی ہے ۔

قرآن پاک کی بہت سی آیات میں توحید افعالی کی تصریح یا اس کی طرف اشارہ موجود ہے جیسے سوره رعد آیہ 16 ، سوره انعام آیت 102، سوره اعراف آیت 54 ، سوره یوسف آیت 40 ، و سوره انعام آیت  164۔

توحید عبادی

توحید عبادی توحید نظری کے مصادیق(افراد) میں سے ہے ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس معبود کے علاوہ کوئی اور معبود موجود نہیں ہے ۔پس اس بنا پر بندے کو چاہئے کہ اپنی تمام عبادات کو صرف اور صرف خدا کیلئے اور صرف اس کے فرمان کی بجاآوری کیلئے انجام دے ۔

یہ قسم حقیقت میں توحید کی تمام اقسام کا طبعی نتیجہ ہے کیونکہ جب ہماری ہستی اس سے ہے ہمارے وجود کا اختیار اس کے دست قدرت میں ہے جہان میں مؤثر ہونے کی صلاحیت بھی اسی کے وجود سے ہے حکم دینے اور قانون بنانے کا اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہے تو اب کسی اور کیلئے عبادت کا مقام بھی نہیں بچتا ہے ۔عبادت میں کسی بھی طرح کے غیر الہی محرکات کا داخل ہونا عبادت کی ارزش کی کمی کا باعث اور کبھی عبادت کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے ۔قرآن کی نگاہ میں انبیاء کے ارسال کا مقصد یہ ہے کہ بندگان خدا صرف اس کیلئے خالصانہ عبادت کو انجام دیں ۔[32]

قرآن کریم نے متعدد آیات میں توحید عبادی کے موضوع کو بیان کیا ہے:سوره انعام آیت 102، سوره حمد آیات 2 تا 5، سوره انبیاء|آیت 25۔

دلائل توحید

قرآن کریم، معصومین کی روایات، فیلسوف کے آثار اور اسلامی متکلمین، نے توحید خداوند کو ثابت کرنے کے لئے دلائل ذکر کئے ہیں. ان میں بعض دلائل درج ذیل ہیں:

• برہان تمانع، یہ آیت “لَوْ کانَ فیهِما آلِهَةٌ إِلاَّ اللَّهُ لَفَسَدَتا” [33] توحید کو اثبات کرنے اور شرک کو رد کرنے کے لئے ہے. [34] اس دلیل کی توضیح میں کہا گیا ہے کہ اگر دو خدا فرض کئے جائیں اور ایک کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کرے اور دوسرا اس کے خلاف ارادہ کرے تو اس صورت میں تین فرض ممکن ہیں:

• ١. دونوں کا ارادہ پورا ہو جائے: اس صورت میں دو مخالف جمع ہوں گے جو کہ نا ممکن ہے.

• ٢. کسی ایک کا ارادہ بھی محقق نہ ہو: یہ دونوں خداؤں کی عجز و ناتوانی کی نشانی ہے.

• ٣. دونوں میں سے ایک کا ارادہ محقق ہو: اس صورت میں، واضح ہو جائے گا ان دونوں میں سے ایک عاجز اور ناتوان ہے اور دوسرا حقیقی خدا ہے. [35]

ترکیبی دلیل، فلسفہ اسلامی کی دلیل، خدا کے مرکب ہونے کو رد کرنے سے، توحید کا اثبات ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگر فرض کیا جائے کہ دو خدا ہیں تو دونوں کے مرکب ہونے پر بھی یقین رکھنا پڑھے گا، اور یہ کہ واجب الوجود کی تشکیل دو واجب سے ہے، اور کیونکہ ہر مرکب موجود کو ایک عامل کی ضرورت ہوتی ہے جو اس ترکیب کو وجود میں لائے، پس مرکب وجود، واجب الوجود نہیں ہو سکتا اور ضروری ہے کہ وہ بسیط ہو تا کہ واجب الوجود ہو سکے، اس لئے مرکب ہونے کے لئے واجب الوجود ہونا ضروری ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ، صرف واحد ہی واجب الوجود ہو سکتا ہے. [36] اس کے علاوہ جو دلائل من جملہ دلیل تعین، دلیل امتناع کثرت، دلیل مقدورات، اور دلیل بعثت انبیاء، جو کہ فلسفہ اور کلام میں ذکر ہوئیں ہیں. [37] امام علیؑ نے امام حسنؑ کو خظ لکھا جس میں خداوند کے ایک ہونے کو ثابت کرنے کے لئے ایک دلیل بیان کی اور اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی شریک ہوتا، تو اس کے رسول لوگوں کے پاس آتے. [38] اس دلیل کو “برہان بعثت انبیاء” کے عنوان سے اپنے آثار میں ذکر کیا ہے.[39]

شیعہ پر شرک کی تہمت

شیعہ کا شفاعت پر یقین رکھنا، پیغمبروں اور اولیاء الہی سے توسل کرنا اور اسی طرح پیغمبروں اور اولیاء الہی کی قبروں پر جانا وغیرہ، ان امور کی وجہ سے وہابی شیعوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں. [40] لیکن شیعہ ان تہمتوں کو نادرست سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو مسلمان ان اعمال کو انجام دیتے ہیں، ان کی نیت ہر گز پیغمبروں اور اولیاء الہی کی پرستش نہیں ہے اور ان کے لئے مقام الوہیت کے قائل نہیں ہیں اور ان کی نیت صرف اور صرف پیغمبروں اور اولیاء الہی کا احترام کرنا ہے اور اسی طرح ان ہستیوں کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہونا مقصد ہے. [41]

ابن تیمیہ کے مطابق، جو کوئی امام علیؑ سے متوسل ہوگا، وہ کافر ہے اور اگر کوئی ایسے شخص کے کفر پر شک کرے گا وہ بھی کافر ہے [42] اور اگر کوئی پیغمبرؐ کی قبر یا کسی نیک شخص کی قبر پر جا کر حاجت طلب کرے گا، تو وہ مشرک ہے اور اسے توبہ کرنی چاہیے اور اگر توبہ نہ کی، تو اسے قتل کیا جائے. [43] عبدالعزیز بن باز، وہابی مفتی نے اپنے آثار میں دعا، قبروں پر استغاثہ کرنا، شفا طلب کرنا اور دشمنوں پر فتح حاصل کرنے کو شرک اکبر کہا ہے.[44]

شیعہ قرآن کریم کی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے معتقد ہیں کہ شفاعت صرف اس صورت میں شرک ہے کہ اگر مستقل طور پر اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کسی سے درخواست کی جائے، کیونکہ اس صورت میں ربوبیت اور تدبیر الہیٰ میں شرک ہے. [45] شیعہ علماء محمد بن عبدالوہاب اور عبدالعزیز بن باز کے جوابات میں قرآن کریم کی وہ آیات بیان کرتے ہیں جن میں بتوں سے شفاعت طلب کرنے سے منع کیا گیا ہے، اور یہ کہ پیغمبروں سے شفاعت طلب کرنے اور بتوں سے شفاعت طلب کرنے کے درمیان بہت فرق پایا جاتا ہے اور معتقد ہیں کہ مسلمان قرآن کریم میں، بت پرستوں کی طرح ہر گز پیغمبروں کو “الہ” “رب” یا ہستی کا مالک نہیں سمجھتے ہیں.[46]

_________________________

حوالہ جات

  1. کریمی، توحید از دیدگاہ آیات و روایات (۲)، ۱۳۷۹ش ص۱۹-۲۰.
  2. کریمی، توحید از دیدگاہ آیات و روایات (۲)، ۱۳۷۹ش، ص۱۹-۲۰.
  3. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۸۹ش، باب۱، حدیث۸، ص۱۰؛ باب۲، حدیث۲۶، ص۶۴؛ باب۱، حدیث۳۵، ص۲۴.
  4. شیخ صدوق، التوحید، ۱۳۸۹ش، باب۲، حدیث۱۴و۱۵، ص۴۸-۵۱.
  5. طباطبایی، «توحید شہودی از منظر امام خمینی»، ص۱۰۴.
  6. زکی افشاگر، «توحید افعالی و آموزہ‌ہای مرتبط از نظر ابن عربی و ملاصدرا»، ص۱۳۶.
  7. زکی افشاگر، «توحید افعالی و آموزہ‌ہای مرتبط از نظر ابن عربی و ملاصدرا»، ص۱۳۶.
  8. یحیی، «سیر مسألہ توحید در عالم اسلام تا قرن ہفتم ہجری»، ص۱۹۶؛ صافی، تجلی توحید در نظام امامت، ۱۳۹۲ش، ص۲۱۔
  9. یحیی، «سیر مسألہ توحید در عالم اسلام تا قرن ہفتم ہجری»، ص۱۹۶.
  10. رمضانی، «توحید»..
  11. ملاصدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۴، ص۵۴.
  12. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۲۴.
  13. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۷۶ و ۸۱.
  14. طارمی‌راد، «توحید»، ص۴۰۶.
  15. مصباح یزدی، خداشناسی (مجموعہ کتب آموزشی معارف قرآن ۱)، ۱۳۹۴ش، ص۱۸۰.
  16. سید رضی، نہج البلاغہ، دارالکتب اللبنانی، ج۱، ص۳۹.
  17. شریعتمداری، «توحید از دیدگاہ قرآن و نہج البلاغہ (۱)»، ص۴۸.
  18. طارمی‌راد، «توحید»، ص۴۰۶و۴۰۷.
  19. سورہ اخلاص، آیت۱.
  20. سورہ صافات، آیہ ۳۷؛ سورہ محمد، آیہ ۱۹.
  21. سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۳.
  22. سوره یوسف، آیہ ۱۱۰؛ سوره انبیا آیہ ۸؛ سوره فصلت آیہ ۶.
  23. سورہ ص، آیہ ۶۵.
  24. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ قرآن و حدیث، ۱۳۹۱ش، ج۵، ص۴۱۹.
  25. سوره شورا، آیت 11؛ سورۂ توحید، آیت 4
  26. صدوق، کتاب التوحید، ص83 و 144
  27. الالہیات، ج1، ص355٫
  28. مصباح یزدی، معارف قرآن، خداشناسی،
  29. رجوع کریں: کلینی، ج8، ص139؛ ابن بابویہ، ص56
  30. نہج البلاغہ، خطبہ 1، ص39
  31. رجوع کریں: ابن بابویہ،التوحید، ص140،144. مجلسی،بحار الانوار ج4، ص62
  32. سوره بینہ، آيت5
  33. سوره انبیاء، آیہ۲۲.
  34. یثربی، تاریخ تحلیلی انتقادی فلسفہ اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۳-۵۰۴.
  35.  یثربی، تاریخ تحلیلی انتقادی فلسفہ اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۴.
  36. یثربی، تاریخ تحلیلی انتقادی فلسفہ اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۸-۵۰۹.
  37. یثربی، تاریخ تحلیلی انتقادی فلسفہ اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۶-۵۱۵.
  38.  نہج البلاغہ، نامہ۳۱.
  39.  یثربی، تاریخ تحلیلی انتقادی فلسفہ اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۵۱۳-۵۱۴.
  40. استادی، شیعہ اور چند سوالوں کے جواب ، ۱۳۸۵ش، ص۸۴.
  41. استادی، شیعہ اور چند سوالوں کے جواب ، ۱۳۸۵ش، ص۸۴.
  42. «وقال شیخ الإسلام ابن تیمیۃ رحمه‌الله: من دعا علی بن أبی‌طالب، فقد کفر، ومن شک فی کفره، فقد کفر.» (الدّرر السّنیة فی الأجوبۃ النّجدیۃ، ۱۴۱۷ق، ج۹، ص۲۹۲.)
  43. ابن تیمیہ، زیارة القبور والاستنجاد بالمقبور، ۱۴۱۲ق، ص۱۹.
  44. بعض الممارسات الشرکیۃ عند القبور»، بن‌باز..
  45. استادی، شیعہ اور چند سوالوں کے جواب، ۱۳۸۵ش، ص۸۴-۸۵.
  46. سبحانی تبریزی، مرزهای توحید و شرک در قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۹.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے