بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔
’’ إِنَّ لِقَتْلِ اَلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوبِ اَلْمُؤْمِنِينَ لاَ تَبْرُدُ أَبَداً‘‘ (بحارالانوار ، جلد ۴۵، صفحہ ۵۸)
علماء، خطباء، ذاکرین، شعراء، دانشوران، مرثیہ خوان، نوحہ خوان، ذمہ داران انجمن ہائے ماتمی، بانیان مجالس و جلوس اور عزادارن امام مظلومؑ کا متفقہ علیہ بیانیہ:
’’یقینا شہادت حسینؑ سے مومنین کے دلوں میں ایک ایسی حرارت پیدا ہوگی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ ‘‘
’’تحفظ منبر و عزاداری‘‘کےلئے ہماری حسینی ذمہ داریاں:
۱۔ کربلا خلوص اور الٰہیت کا اعلیٰ مظہر ہے ۔ لہذا عزاداری میں ہر طرح کے دکھاوا اور شہرت طلبی سے پر ہیز کیا جائے۔
۲۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام نے الگ الگ رنگ و نسل کے لوگوں کو جوڑا تھا ۔ اس لئے عزاداری میں اختلافات سے دور رہا جائے۔
۳۔ عزاداری عبادت ہے اور اعلیٰ ترین عبادت ہے۔ لہذا اسکو خدا، رسول ؐ خدا اور اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت اور قربت کا ذریعہ بنایا جائے۔
۴۔ جہاں ذکر حسینؑ ہوتا ہے وہاں رسولؐ خدا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، ائمہ ہدیٰ علیہم السلام اور ملائکہ مقربین تشریف لاتے ہیں۔ لہذا ان مقدس ہستیوں کی موجودگی کا خیال رکھا جائے۔
۵۔ مقصد امام حسین علیہ السلام اصلاح امت تھا۔ لہذا اصلاح امت پیش نظر رہے، لیکن ہر قسم کے طنز اور طعنہ سے دور رہا جائے۔
۶۔محرم و صفر بیان فضائل و مصائب اور اصلاح امت کا بہترین زمانہ ہے مگر اہلبیت علیہم السلام کے فضائل و مصائب اس طرح بیان کئے جائیں کہ غلو یا تقصیر کا کوئی پہلو نہ نکلے۔ کسی طرح کی غلط بیانی نہ ہو اور تفسیر بالرائے نہ ہو۔ مطالب کو معتبر کتابوں سے بیان کیا جائے۔
۷۔ پیش نظر رہے کہ عزاداری سیرت معصومین علیہم السلام سے ماخوذ ہے لہذا اسی کی روشنی میں عزاداری کا اہتمام ہو۔
۸۔ عزاداری کے سلسلہ میں مراجع کرام، آیات عظام اور علمائے اعلام کی روش جو در حقیقت سیرت معصومین علیہم السلام کی آئینہ دار ہے اسے ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ لہذا علماء، خطباء، ذاکرین اور شعراء کسی پر بھی کسی طرح کی تنقید سے قبل مراجع کرام کے بیانات اور روش کو پیش نظر رکھیں۔
۹۔ خطباء و ذاکرین و مقررین مکمل توجہ کے ساتھ آیات و احادیث کے متن کو پڑھیں ۔دیکھنے میں آیا ہے کہ کبھی کبھار رواروی میں آیات یا روایات کو پیش کرنے میں غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح شعرائے کرام تخیل سے ضرور کام لیں مگر اپنے تخیلات کو معصومین علیہم السلام کی جانب منسوب کرنے سے سختی سے پرہیز کریں۔