مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الثَّقَفِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیه السلام يَقُولُ لِفَاطِمَةَ علیها السلام وَقْفَةٌ عَلَى بَابِ جَهَنَّمَ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُتِبَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ رَجُلٍ مُؤْمِنٌ أَوْ كَافِرٌ فَيُؤْمَرُ بِمُحِبٍّ قَدْ كَثُرَتْ ذُنُوبُهُ إِلَى النَّارِ. محمد بن مسلم ثقفی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا: حضرت فاطمہ سلام الله علیها قیامت کے دن جہنم کے دروازے پر کھڑی ہوں گی۔
اس دن ہر شخص کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ وہ مؤمن ہے یا کافر۔
پس جب کسی ایسے محب اہل بیت کو جہنم میں لے جانے کا حکم ہوگا جس کے گناہ زیادہ ہوں گے۔
فَتَقْرَأُ فَاطِمَةُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مُحِبّاً فَتَقُولُ إِلَهِي وَ سَيِّدِي سَمَّيْتَنِي فَاطِمَةَ وَ فَطَمْتَ بِي مَنْ تَوَلَّانِي وَ تَوَلَّى ذُرِّيَّتِي مِنَ النَّارِ وَ وَعْدُكَ الْحَقُّ وَ أَنْتَ لا تُخْلِفُ الْمِيعادَ۔ تو فاطمہ (س) اس کی پیشانی پر محب (محبت رکھنے والا) لکھا دیکھیں گی۔
وہ عرض کریں گی: اے میرے معبود اور میرے سردار! تو نے میرا نام فاطمہ رکھا ہے اور وعدہ فرمایا ہے کہ جنہوں نے مجھ سے اور میری ذریت سے محبت و ولایت رکھی ہے تو انہیں جہنم سے دور رکھا ہے، تیرا وعدہ برحق ہے، اور تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے۔
فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ صَدَقْتِ يَا فَاطِمَةُ إِنِّي سَمَّيْتُكِ فَاطِمَةَ وَ فَطَمْتُ بِكِ مَنْ أَحَبَّكِ وَ تَوَلَّاكِ وَ أَحَبَّ ذُرِّيَّتَكِ وَ تَوَلَّاهُمْ مِنَ النَّارِ وَ وَعْدِيَ الْحَقُّ وَ أَنَا لَا أُخْلِفُ الْمِيعَادَ وَ إِنَّمَا أَمَرْتُ بِعَبْدِي هَذَا إِلَى النَّارِ لِتَشْفَعِي فِيهِ فَأُشَفِّعَكِ وَ لِيَتَبَيَّنَ لِمَلَائِكَتِي وَ أَنْبِيَائِي وَ رُسُلِي وَ أَهْلِ الْمَوْقِفِ مَوْقِفُكِ مِنِّي وَ مَكَانَتُكِ عِنْدِي فَمَنْ قَرَأْتِ بَيْنَ عَيْنَيْهِ مُؤْمِناً فَخُذِي بِيَدِهِ وَ أَدْخِلِيهِ الْجَنَّة۔
تو اللہ عزّوجلّ ارشاد فرمائے گا: اے فاطمہ! تم نے سچ فرمایا: میں نے تمہارا نام فاطمہ رکھا اور میں نے تمہارے وسیلے سے اس کو (جو تم سے اور تمہاری اولاد سے محبت رکھتا ہے) جہنم سے محفوظ کیا ہے۔ میرا وعدہ حق ہے، میں وعدہ خلافی نہیں کرتا؛ لیکن میں نے اسے جہنم کی طرف بھیجا، تاکہ تم اس کے حق میں شفاعت کرو اور میں تمہاری شفاعت کو قبول کروں، تاکہ میرے فرشتے، انبیاء، رسول اور تمام اہلِ محشر تمہاری قدر و منزلت کو پہچانیں۔
پس جس کی پیشانی پر تم مؤمن پڑھو، اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے جنت میں داخل کردو۔
حوالہ: علل الشرائع، ج ۱ ص ۱۷۹ بحار الأنوار (ط – بيروت)، ج ۴۳ ص ۱۱۴ ۔
توضیح و تفسیر
1: مقامِ فاطمہ زہرا (س) کی الٰہی عظمت:
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ فاطمہ زہرا (س) صرف نبی کی بیٹی نہیں بلکہ اللہ کے اذن سے شفاعتِ کبری کی حامل ہستی ہیں۔
ان کا مقام اس قدر بلند ہے کہ جہنم کے دروازے پر ان کا موقف اللہ کی قدرت اور رحمت کے اظہار کا مظہر ہوگا۔
٢: فاطمہ (س) کی شفاعتِ خاص:
روایت میں یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ اللہ خود فرماتا ہے: میں نے اس بندے کو جہنم کی طرف بھیجا تاکہ تم شفاعت کرو اور تمہاری عظمت ظاہر ہو؛ یعنی اللہ فاطمہ (س) کو شفاعت کے ذریعے اپنی رحمت کا مظہرقرار دیتا ہے۔
٣: نام فاطمہ کی معنوی حقیقت:
روایت کے مطابق فاطمہ کا مطلب ہے جو دوسروں کو جہنم سے جدا (فطم) کرے؛ یعنی اللہ نے خود انہیں اس لیے فاطمہ نام دیا کہ ان کے وسیلے سے اہل محبت جہنم سے دور رہیں۔
٤: محبت و ولایت کی نجات بخش حیثیت:
اس حدیث سے واضح ہے کہ محض زبانی محبت نہیں، بلکہ ولایت و پیروی وہ پیمانہ ہے جس سے فاطمہ (س) کی شفاعت نصیب ہوتی ہے۔
جو ان سے، ان کے شوہر علی (ع)، اور ان کی اولاد طاہرین (ع) سے محبت و وفاداری رکھے، وہ ان کی شفاعت کا مستحق ہے۔
٥: قیامت میں فاطمہ (س) کا مقام شفاعت:
فاطمہ (س) کا باب جہنم پر کھڑا ہونا ان کی شفاعت عامہ کی علامت ہے؛ یعنی وہ خود اپنے پیروکاروں کو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کریں گی اور یہ سب اللہ کے حکم و ارادے سے ہوگا۔
از قلم️: مولانا ہلال اصغر ہندی








