باب 5 – توحید کی اقسام
توحید کی چار قسمیں ہیں۔
ان چار قسموں میں خدا کو واحد اور ایک ماننا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔ توحید در ذات
2۔ توحید در صفات
3۔ توحید در افعال
4۔ توحید در عبادت
توحید در ذات
اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کے علاوہ دوسرے خدا کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ۔ (سورہ شوریٰ 11)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔
ہم خدا کی ذات کے بارے میں اپنے ذہن میں کوئی شبیہ نہیں بنا سکتے کہ خدا کس طرح کا ہے۔ چونکہ ہمارا ذہن چھوٹا ہے جبکہ خدا کی ذات لامحدود ہے۔ اگر ہم خدا کی ذات کا اپنے ذہن میں تصور کریں گے تو یہ شرک در ذات ہو گا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو شخص اپنی عقل وہم و خیال میں خدا کی ذات کا کوئی خیالی تصور قائم کرے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خدا اس کے علاوہ کچھ اور ہے کیونکہ جو کچھ اس کے ذہن میں آئے گا وہ اس کے ذہن کی پیدوار ہو گی اور اس کے ذہن کی مخلوق ہوگی۔ جبکہ خدا خالق ہے مخلوق نہیں۔ پس ہمارے لیے فقط خدا کو ثابت کرنا ہی کافی ہے اور ہماری عقل کے پاس اتنی طاقت اور وسعت نہیں کہ خدا کی ذات کو سمجھ سکے۔
اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ:
’’جب اللہ تک پہنچ جاؤ گے تو خاموش ہو جاؤ۔‘‘
توحید در افعال
مطلب یہ کہ اس کائنات میں جتنے بھی کام ہو رہے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ انجام دے رہا ہے۔ یعنی رزق دینا، مارنا، زندگی دینا، شفاء دینا، ہر کام خدا کرتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُمْ۔ (سورہ روم:40)
اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یا اللہ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم رب ہیں پس ہم ان سے بیزار ہیں جس طرح حضرت عیسیٰؑ نصاریٰ سے بیزار تھے۔ بار الٰہا جو کچھ یہ لوگ گمان کرتے ہیں ہم نے ان کو اس کی دعوت نہیں دی۔‘‘
توحید در صفات
اللہ تعالیٰ اپنی ذاتی صفات میں یکتا ہے۔
توحید در عبادت
اس کا مطلب یہ ہے کہ فقط خدا کی عبادت کی جائے۔ اگر خدا کی عبادت کے ساتھ بتوں کی عبادت کی جائے تو یہ شرک ہو گا کیونکہ ’’لا الٰہ الا اللّٰہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا (سورہ نساء:36)
اور تم لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دو۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:
’’آدمی کوئی ثواب کا کام کرتا ہے لیکن اس کا مقصد خدا کی خوشنودی نہیں ہوتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی مدح و ثنا کریں کہ فلاں بڑا عبادت گزار ہے تو یہ شخص عبادت خدا میں شرک کا مرتکب ہوا ‘‘ـــ
اسی لیے روایات میں منقول ہے:
ألْرِّیَائُ شِرْکٌ۔ ریا کاری شرک ہے۔