باب 12 – امامت
تعریف:
حضرت خا تم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین کی حفاظت اور بندوں کی ہدایت کے لئے جو منصب خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اس کو منصب امامت کہتے ہیں۔
ضرورت امام
جس طرح کہ آپ بحث نبوت میں جان چکے ہیں کہ اپنے بندوں سے اللہ کی بے پناہ محبت اور لطف الٰہی کا تقاضا ہے کہ انسان بغیر ہادی و رہبر کے نہ رہے اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد بھی انسان کی ہدایت کے لئے ہادی کا ہونا ضروری ہے۔
یہ تو ایک آسان سی بات ہے کہ جب بھیڑوں اور بکریوں کا مالک بھی چرواہے کے بغیر ان کو چرنے کے لیے نہیں بھیجتا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ رب کریم و حکیم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد ان کی امت کو بغیر کسی ہادی و رہبر کے چھوڑے؟ عقل سلیم اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کے بعد ایک ایسا منصب ہونا چاہیے جس کے ذریعے بندوں کی ہدایت کا سلسلہ چلتا رہے اور وہ منصب امامت ہے۔
ہشام ابن حَکم حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد کا گزر بصرہ سے ہوا وہاں کی جامع مسجد میں داخل ہوئے جہاں عمرو ابن عبید مغربی ( اہلسنت عالم) لوگوں کے سوالات کے جوابات دے رہا تھا۔ ہشام نے بھی اجازت چاہی کہ میں بھی سوال کروں۔ عمرو نے کہا ٹھیک ہے بیان کرو۔
ہشام نے پوچھا: کیا تیرے پاس آنکھ ہے؟
عمرو نے جواب دیا: ہاں میرے پاس آنکھ ہے
ہشام نے پوچھا: بتا اس سے کیا کام لیتے ہو؟
عمرو نے جواب دیا: اس سے دکھائی دینے والی چیزیں دیکھتے ہوئے مختلف رنگوں میں فرق کرتا ہوں۔
ہشام نے پوچھا: کیا تیرے پاس زبان ہے؟
عمرو نے جواب دیا: جی ہاں۔
ہشام نے پوچھا: اس سے کیا کام لیتے ہو؟
عمرو نے جواب دیا: اس سے کھانے کی لذت معلوم کرتا ہوں۔
ہشام نے پوچھا: کیا تیرے پاس ناک ہے؟
عمرو نے جواب دیا: جی ہاں۔
ہشام نے پوچھا: اس سے کیا کام لیتے ہو؟
عمرو نے جواب دیا:اس سے میں سونگھتا ہوں۔
ہشام نے پوچھا: تیرے پاس کان ہے؟
عمرو نے جواب دیا: جی ہاں
ہشام نے پوچھا: اس سے کیا کام لیتے ہو؟
عمرو نے جواب دیا: مختلف آوازیں سنتا ہوں۔
ہشام نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ قلب و عقل بھی ہیں ؟
عمرو نے جواب دیا: ہاں ہیں۔
ہشام نے پوچھا: کیا کام لیتے ہو؟
عمرو نے جواب دیا: اگر میرے اعضاء و جوارح مشکوک ہو جائیں تو قلب و عقل کے ذریعے سے اس شک کو دور کرتا ہوں۔
ہشام نے اس کی تمام باتوں کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔ خدا نے عقل کو اعضاء و
شرائط امامت
1۔ عصمت:
انبیاء کرام کی طرح امام کا بھی معصوم عن الخطا ء ہونا ضروری ہے۔ عصمت ایک نفسانی کیفیت ہے جس کے ہوتے ہوئے گناہ کبیرہ تو درکنار معصوم گناہ صغیرہ کا بھی ارادہ نہیں کرتا۔
عصمت امامت کی بنیادی شرائط میں سے ہے۔ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ معصوم ہو کیونکہ اگر امام معصوم نہ ہو تو دو خرابیاں لازم آتی ہیں۔
ایک یہ کہ عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ جب رہبر غلطیوں اور نسیان کا شکار ہو جائے گا تو عوام اس کی بات کو درست نہیں سمجھیں گی۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں آئے گا کہ ہو سکتا ہے کہ غلطی کر رہے ہو یا نسیان ہو گیا ہو لہٰذا بات کی قدر و قیمت ختم ہو جائے گی۔
دوسری خرابی یہ لازم آئے گی کہ جب رہبر کسی امر کا حکم دے اور پھر بعد میں خود اس امر کی خلاف ورزی کر دے تو عوام ہرگز اس کے حکم کو قبول نہیں کرے گی۔ مثلاً ڈاکٹر کہتا ہے کہ سگریٹ مت پیو صحت کے لیے مضر ہے۔ جبکہ خود مجمع عام میں سگریٹ پیتا ہوا نظر آتا ہے تو عوام اس کی بات کو اہمیت نہیں دے گی۔ اگر امامؑ جو دین و دنیا کا رہبر ہے گناہگار ہو تو پھر مقصد امامت فوت ہو جائے گا جو انسانوں کی ہدایت کے لیے بنایا گیا تھا۔ لہٰذا امام کا معصوم ہونا ضروری ہے۔
2۔ منصوص من اللہ
جس طرح نبی ’’منصوص من اللہ‘‘ ہوتا ہے اسی طرح امام کا بھی منصوص من اللہ ہونا ضروری ہے۔ منصب نبوت ہو یا امامت اس کو منتخب کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہمارا یہ مسلم عقیدہ ہے کہ امام کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہونا ضروری ہے۔
باقی رہی ووٹوں کی بات کہ اکثریت جس کو امام منتخب کر دیں وہی رہبر ہے۔ یہ نظریہ عقلاً باطل ہے کیونکہ جو اکثریت اس کو امامؑ بنا رہی ہے اس کی امامت بھی انہیں کے لیے ہو گی کیونکہ باقی افراد تو اس کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کی ہدایت کچھ لوگوں کے لیے ہو اور کچھ کے لیے نہ ہو؟ دوسری بات جب 50 افراد میں سے 26 افراد ایک کو اپنا رہبر منتخب کریں جبکہ 24 افراد اپنا رہبر قبول نہیں کر رہے ہیں تو کیا 26 افراد کی پسند کو 24 افراد پر تھوپنا کیا ڈیکٹیٹر شپ نہیں ہے؟
جو شخص ووٹوں کے ذریعے رہبر بنتا ہے تو جنہوں نے اس کو ووٹ دئیے ہیں ان کی خوشنودی کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دین کا رہبر اللہ کی خوشنودی کو چھوڑ کر لوگوں کی خوشنودی کے مطابق کام کرے؟ لہٰذا یہ نظریہ باطل ہے۔ ضروری ہے کہ وہ نمائندہ الہٰی ہو۔ اللہ کی طرف سے ہو اور پوری جہاں کا ہادی ہو فقط کسی ایک گروہ کے لیے نہ ہو بلکہ پوری امت کے لیے ہو۔
یہاں بھی سوال اٹھ سکتا ہے کہ کیا یہ ڈکٹیٹر شپ نہیں کہ ایک بندے کو تمام لوگوں کے لیے رہبر کے طور پر منتخب کر دیا جائے اور انسان کو اس کی امامت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا جائے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام بندوں کا حاکم ہے تو اللہ اپنے بندوں پر حکم نافذ کرنے کا حق رکھتا ہے لہٰذا وہ نمائندہ الہٰی ہو گا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو پہنچانے کا محتاج ہو گا جبکہ اس کی اپنی طرف سے کوئی رائے نہیں ہو گی چونکہ امام معصوم ہوتا ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کی غلطی کا بھی شبہ نہیں ہے۔ کیونکہ امام کا انتخاب اللہ کی طرف سے ہونا عقل و نقل کی رو سے ثابت ہے۔
3۔عالم علم لدنی
تیسری صفت امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالم علم لدنی ہو یعنی امام کو علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست عطا ہو کیونکہ اگر امام علم نہ رکھتا ہو تو ہدایت کا کام سرانجام نہیں دے سکتا لیکن اگر دنیا میں آکر عام لوگوں کی طرح اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں تو پھر جو اس کو تعلیم دے رہا ہے وہ زیادہ حقدار امامت ہو گا لہٰذا یہ سلسلہ رکے گا نہیں کیونکہ اس کو بھی کسی نے تعلیم دی ہوگی۔ اس طرح یہ سلسلہ برقرار رہے گا لہٰذا امام کا عالم علم لدنی ہونا ضروری ہے۔
4۔ معجزہ
امام معصوم کے لیے اپنی امامت کے اثبات کے لیے معجزہ نما ہونا ضروری ہے۔