اگر ہم رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے باوفا اصحاب کی پاکیزہ زندگیوں پر غور کریں تو ہمیں ان کی فضیلت و کرامت، عزت و عظمت کا ایک اہم سبب ان کا امین ہونا معلوم ہوگا، جس نے اسرارِ رسالت و امامت کی جتنی حفاظت کی اسے اتنی ہی عظمت و فضیلت حاصل ہوئی۔
تاریخ اصحاب میں حضرت سلمان محمدی، حضرت ابوذر غفاری، حضرت مقداد، حضرت عمار، حضرت حذیفہ، حضرت بلال، حضرت میثم، حضرت حجر بن عدی، حضرت رشید ہجری، حضرت جابر جعفی، شہداء کربلا، جناب زرارہ، جناب علی ابن یقتین، جناب یونس بن عبدالرحمن، جناب عبدالعظیم حسنی، جناب علی ابن مہزیار رضوان اللہ تعالی علیہم وغیرہ کا شرف صرف یہ نہیں تھا کہ انہوں نے سفر و حضر، خلوت و جلوت، صلح و جنگ میں معصوم رہبر کی ہمراہی کی بلکہ ان کی عظمت و فضیلت کا ایک اہم سبب دین و مذہب کے اسرار کی حفاظت بھی ہے۔
اصحاب میں جو جس قدر رازدار اور اسرار کی حفاظت کرنے والا تھا وہ اسی قدر معصوم سے نزدیک تھا۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی اور خاص شاگرد جناب ابو بصیر جنکے ثقہ ہونے کے سلسلہ میں علماء کا اجماع ہے اور انکی بیان کردہ تمام روایات امامیہ کے نزدیک معتبر ہیں۔ ایک دن جناب ابو بصیر نے اپنے استاد اور مولا امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: مولا آپ مجھے علم سکھانے میں مضایقہ فرماتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے پوچھا کون سا علم؟ جناب ابو بصیر نے کہا وہی علم جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے جناب میثم کو تعلیم فرمایا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میثم نہیں ہو۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تمہیں کچھ تعلیم کیا ہو اور تم نے اسے دوسروں کو نہ بتایا ہو؟ انھوں نے جواب دیا: فرزند رسول ایسا ہی ہوا (یعنی دوسروں سے بیان کیا ہے) تو مولا نے فرمایا پس تم رازدار نہیں ہو کہ تمہیں وہ علوم سکھائے جائیں۔
جس طرح حضورِ معصوم میں فضیلت انہی کو ملی جو رازدار تھے اسی طرح عصر غیبت میں بھی مقام و مرتبہ انہی کو نصیب ہوا جو اسرار کے محافظ اور رازدار تھے۔
قطب عالم امکان، لنگر زمین و زمان، صاحب الزمان، حضرت ولی عصر بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف و صلواۃ اللہ و سلامہ علیہ و علی آبائہ الطاہرین کی غیبت صغری کے زمانے میں وہی حضرات نیابت خاصہ پر فائز ہوئے جو دیانت دار، امین اور اسرار کے محافظ تھے۔ اسی طرح غیبت کبری میں بھی ان حضرات پر ہی امام عالی مقام کی خاص نظر کرم ہوئی جو دین و مذہب کے اسرار کے محافظ و امین ہیں کہ جب امام حسن عسکری علیہ السلام نے فقیہ کی تقلید کی تعلیم دی تو فقیہ کے شرائط میں سے ایک شرط "حافظا لدینه” تعلیم فرمایا۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے تیسرے نائب خاص حضرت حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ کہ جو 21 برس نیابت خاصہ کے عہدے پر اسی لئے فائز رہے کیونکہ آپ دیانتدار، اسرار کے محافظ اور امین تھے۔ آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابی اور دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کے خاص اور رازدار تھے۔ جیسا کہ جناب شیخ طوسی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الغیبہ میں نقل فرمایا: جناب حسین بن روح نوبختیؒ اپنے زمانے کے سب سے عقل مند انسان تھے۔ غیر شیعوں سے تقیہ سے ملتے تھے۔ (الغیبہ، صفحہ 112) حتی حاکم شام کو برا کہنے کے سبب ایک خادم کو ملازمت سے سبکدوش فرما دیا۔ (الغیبہ، صفحہ 386) جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کی بیٹی جناب ام کلثوم رضوان اللہ علیہا سے منقول ہے کہ جناب حسین بن روح نوبختی ان کے والد کے خاص دوست اور رازدار تھے۔ (الغیبہ، صفحہ 372)
اگرچہ جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ کا دوسرے نائب خاص جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ کے 10 خاص وکیلوں میں شمار ہوتا تھا اور ظاہرا دوسرے وکلاء ان سے زیادہ جناب محمد بن عثمان رضوان اللہ تعالی علیہ سے قریب تھے، لیکن جب ان کا آخری وقت آیا تو حضرت ولی عصر عجل اللہ فرجہ الشریف کے حکم کے مطابق انہوں نے جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ کی نیابت خاصہ کا اعلان کیا۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ رہے کہ خاصان خدا کے نزدیک ذمہ داریوں کی ادائیگی اہم ہوتی ہے عہدہ اور منصب اہم نہیں ہوتا لہذا وہاں موجود دوسرے وکیل جناب ابو سہل نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ جنکے بارے میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ تیسرے نائب خاص مقرر ہوں گے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جناب حسین بن روح رضوان اللہ تعالی علیہ کی خدمت میں آئے اور ایک اطاعت گذار کی طرح خود کو پیش کیا اور جب لوگوں نے ان سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو اعلی ظرفی کے ساتھ جواب دیا کہ شاید میرے لئے ان رازوں کی حفاظت ممکن نہ ہوتی لیکن اگر جناب حسین بن روح کے پاس امام علیہ السلام موجود ہوں اور انکو قینچی سے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تب بھی وہ راز فاش نہیں کریں گے۔ (الغیبہ، صفحہ 391)
مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ دین میں ایمان، نفس پر غلبہ اور اسرار کی حفاظت اس قدر اہم ہے کہ جو اس سلسلہ میں جتنا بلند ہوتا ہے اس کا مرتبہ بھی اسی قدر بلند ہوتا ہے۔ جناب ابو سہل نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ کے نزدیک عہدہ اور منصب اہم نہیں تھا بلکہ ذمہ داریوں کی ادائیگی اہم تھی لہذا انہوں نے حکم امام علیہ السلام کی اطاعت کی اور دوسرے نائب خاص کے اعلان کو تسلیم کیا۔ اسی کے برخلاف محمد بن علی شلمغانی جس نے جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ سے حسد کیا تو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی لعنت کا مستحق ہوا اور آخر میں مرتد ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ دین میں کمال اطاعت و بندگی میں ہے سرکشی میں نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے اولیاء سے سرکشی کرنے کے نتیجے میں انسان دین سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بے دینی اور جاہلیت کی موت دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔
جناب حسین بن روح نوبختی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی نیابت خاصہ کے 21 برسوں میں مختلف ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کیا، تقریبا پانچ برس قید خانے کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ لیکن تمام تر مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن انجام دیا۔ آخر 18 شعبان المعظم سن 326 ہجری کو بغداد میں رحلت فرمائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کا روضہ مبارک محبان آل محمد علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی