امام علی رضا علیہ السلام کے حالات زندگی پر ایک نظر

امام علی رضا علیہ السلام نام ، لقب اور کنیت: حضرت امام علی رضا بن امام موسی کاظم علیہ السلام آئمہ اطہار میں سے آٹھویں امام ہیں۔ آپ کا نام ’’علی‘‘ اور مشہور لقب ’’رضا ‘‘ہے اور اسی لقب کی وجہ سے آپ کو اکثر امام رضا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی كنيت ’’ابو الحسن‘‘ ہے۔ تاریخ و مقام ولادت اور شہادت: امام رضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت 153ہجری میں مدینہ میں ہوئی اور آپ کی شہادت 202ہجری میں ہوئی اور خراسان کے طوس نامی علاقے میں آپ کو دفن کیا گیا کہ جسے اب مشہد کہا جاتا ہے۔ والدہ ماجدہ: امام رضا علیہ السلام کی والدہ کا نام جناب خيزران ہے۔ اولاد: شیخ مفيد، علامہ طبرسی اور ابن شہرآشوب نے لکھا ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے علاوہ امام علی رضا علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں ہے امام محمد تقی علیہ السلام آٹھویں امام کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ فضائل و مناقب: امام رضا علیہ السلام سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کیا جاتا وہ اس کا جواب دیتے اور سوال پوچھنے والے کو اپنے علم سے فیض یاب کرتے اور اپنے ہر جواب کو قرآن سے اخذ کرتے۔

آپ ہر تین روز میں ایک مرتبہ قرآن ختم کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس سے کم مدت میں بھی قرآن ختم کر سکتا ہوں لیکن میں جو آیت بھی پڑھتا ہوں اس میں اور اس کے شان نزول میں غور و فکر کرتا ہوں۔ امام رضا علیہ السلام کبھی بھی کسی کی بات کو نہیں کاٹتے تھے اور جو بھی ان سے بات کرتا تھا اس کی پوری بات کو سنتے تھے۔ جو شخص بھی امام رضاعلیہ السلام سے کوئی حاجت طلب کرتا وہ اسے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے اور اس کی حاجت پوری کرتے اور عام طور پر بھی ضرورت مند افراد میں بہت زیادہ مال تقسیم کرتے اور اکثر اپنی پہچان کو پوشیدہ رکھ کر عام لوگوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔ مامون کو علماء کی گفتگو اور ان کے بحث مباحثے سننے کا بہت شوق تھا لہذا مامون تمام مذاہب کے علماء، فقہاء، متکلمین اور مناظرین کو امام رضا علیہ السلام کے پاس لے آتا اور امام رضا علیہ السلام ان میں سے ہر ایک کے سوالوں کا جواب دیتے، ہر عالم امام رضا علیہ السلام کے بلند علمی مرتبہ کا اعتراف کرتا اور خود کو امام کے سامنے انتہائی کم علم شمار کرتا۔ بہت سی کتابوں میں مذکور ہے کہ محمد بن عيسى يقطينی نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھے گئے اٹھارہ ہزار سوالات اور امام کی طرف سے دیے گئے ان کے جوابات کو لکھا تھا لیکن زمانے کی ستم ظریفی کی وجہ سے یہ کتاب آنے والی نسلوں کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی مفقود ہو گئی۔ بہت سی شیعہ کتابوں میں امام رضا علیہ السلام سے پوچھے گئے بعض سوالات اور ان کے جوابات مذکور ہیں۔

ایک دفعہ امام رضا علیہ السلام سے کسی نے کہا: اے رسول خدا(ص) کے بیٹے لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے جد امجد نے کہا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اُن کی شکل پہ خلق کیا۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: لوگوں نے حدیث کا پہلا حصہ حذف کر دیا ہے کہ جو اس کے آخری حصہ کا معنی بیان کرتا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے: ایک دفعہ رسول خدا(ص) دو آدمیوں کے پاس سے گزرے کہ جو دونوں ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا: اللہ تمہارے چہرے اور تم جیسے چہرے کو قبیح کرے۔ یہ سن کر رسول خدا(ص) نے یہ گالی دینے والے سے فرمایا: ایسا نہ کہو، بیشک اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی شکل پہ خلق کیا۔ یعنی جس کو تم یہ گالی دے رہے ہو اس کی شکل پہ خلق کیا لہذا اس طرح تمہارا اپنے مدمقابل کو یہ گالی دینا آدم علیہ السلام کو گالی دینا ہے۔ کسی نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: أين كان اللّه ؟ وكيف كان ؟ وعلى أيّ شيء يعتمد ؟. یعنی:اللہ کہاں تھا؟ کیسا تھا؟ اور کس شے پہ اعتماد و سہارا کیے ہوئے تھا؟ تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: إن الله كيّف الكيف فهو بلا كيف، وأيّن الاين فهو بلا أين، وكان اعتماده على قدرته. (مترجم کہتا ہے: میرے پاس امام کے اس جواب کا اردو ترجمہ کرنے کے لیے جامع و مانع الفاظ نہیں ہیں اس لیے اس کا وہ معنی و مفہوم لکھ رہا ہوں جو مؤلف نے لکھا ہے) امام رضا علیہ السلام کے جواب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے زمانے اور احوال کو خلق کیا ہے اور خود اللہ کے لیے نہ کوئی زمانہ ہے اور نہ ہی کوئی حال اور وہ ہر شے سے بے نیاز ہے اور وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی شے پہ بھی تکیہ نہیں کرتا۔ جب اللہ کے ارادہ کے معنی کے بارے میں امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کا فعل ہی اللہ کا ارادہ ہے اور وہ اس طرح سے کہ جب وہ کسی شے کو کہتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے اور یہ کسی بھی لفظ کےبولنے، فکر کرنے، سوچ، کیفیت اور کمیت کے بغیر ہوتا ہے۔ ایک دفعہ امام رضا علیہ السلام سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اس فرمان کا معنی پوچھا گیا: لا جبر ولا تفويض بل أمر بين الأمرين۔ یعنی: نہ جبر ہے اور نہ ہی تفویض ہے بلکہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے۔ تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے افعال کو اللہ ہم کراتا ہے اور انہی افعال پہ ہمیں عذاب بھی دے گا۔ ایسے کہنے والے جبر کے قائل ہیں۔ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوق اور رزق کے امور اپنی حجتوں یعنی آئمہ کے حوالے کر دیے ہیں۔ ایسا کہنے والے تفويض کے قائل ہیں۔ جو جبر کا قائل ہے وہ كافر ہے اور جو تفويض کا قائل ہے وہ مشرك ہے۔

اور جہاں تک ’’الأمر بين الأمرين یعنی: اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے‘‘ کے معنی کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے انجام دینے کا حکم دیا ہے اس کو انجام دینے اور جس سے اللہ نے منع کیا ہے اسے ترک کرنے کا ہمارے پاس راستہ موجود ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو برا کام کرنے اور اسے نہ کرنے کی صلاحیت دی ہے اور اسی طرح اللہ نے انسان کو نیکی کا کام کرنے اور اسے ترک کرنے کی بھی صلاحیت دی ہے۔ امام رضا علیہ السلام سے جب امامت کے بارے میں سوال کیا گیا تو امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ان اللّه لم يقبض نبيه، حتى أكمل له الدين، وأنزل عليه القرآن فيه تفصيل كل شيء، حيث قال عز من قائل : « مَا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ »، وأنزل في حجة الوداع « الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ». والإمامة من إكمال الدين وإتمام النعمة. وقد أقام لهم علياً علماً وإماماً، ومن زعم أن النبي لم يكمل دينه – ببيان الإمام – فقد رد كتاب اللّه، ومن رد كتاب اللّه فهو كافر. ان الإمامة لا يعرف قدرها إلا اللّه، فهي اجل قدراً، وأعظم شأناً، وأعلى مكاناً من أن يبلغها الناس بعقولهم، أو ينالوها بآرائهم. ان الإمامة خلافة اللّه والرسول، وزمام الدين، ونظام المسلمين، والامام يحلل ما أحل اللّه، ويحرم ما حرم اللّه، ويقيم الحدود، ويذب عن الدين، والإمام أمين اللّه في أرضه، وحجته على عباده، وخليفته في بلاده، وهو مطهر من الذنوب، مبرأ من العيوب، لا يدانيه أحد في خلقه، ولا يعادله عالم، ولا يوجد منه بديل، ولا له مثيل. فأين للناس أن تستطيع اختيار مثل هذا ؟!. یعنی:اللہ تعالی نے اس وقت تک اپنے نبی کی روح کو قبض نہیں کیا جب تک ان کے لیے دین کو مکمل اور ہر شے کی تفصیل پر مشتمل قرآن کو نازل نہیں کر دیا۔ ارشاد قدرت ہے:«ہم نے اس کتاب میں کسی شے کو ترک نہیں کیا{سورۃ الأنعام/38}»۔ حجة الوداع کے موقع پہ یہ آیت نازل کی: « آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت کو تم پر اتمام کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا ہے{سورۃ المائدة/3}»۔ امامت ہی دین کا اکمال اور اتمامِ نعمت ہے۔ بیشک اللہ نے حضرت علی کو ان لوگوں کے لیے پرچم ہدایت اور امام مقرر فرمایا ہے۔ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ نبی کریم(ص) نے امام کے بیان کے ذریعے دین کو مکمل نہیں کیا وہ اللہ کی کتاب کو رد کرتا ہے اور جو اللہ کی کتاب کو رد کرتا ہے وہ کافر ہے۔

اللہ کے علاوہ کوئی بھی امامت کی قدر ومنزلت نہیں جانتا، امامت سب سے زیادہ جلیل القدر، سب سے زیادہ عظیم الشان اور سب سے زیادہ بلند مقام و مرتبہ کی مالک ہے کہ لوگوں کی عقلیں اس تک نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہی اُن کی آراء امامت کو بیان کر سکتی ہیں۔ امامت اللہ اور رسول کی خلافت، دین کی سربراہی اور مسلمانوں کا نظام ہے، امام اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو اشیاء کو حلال اور حرام کردہ اشیاء کو حرام قرار دیتا ہے، حدود و قوانین کو قائم کرتا ہےاور دین کی حفاظت کرتا ہے، امام زمین پر اللہ کا امین، بندوں پر اللہ کی حجت اور ملکوں میں اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے، امام گناہوں سے پاک اور عیبوں سے خالی ہوتا ہے، ساری مخلوق میں سے کوئی بھی اس منزلت کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کوئی عالم اس کے برابر ہو سکتا ہے، اس کا بدیل اور ہم مثل موجود نہیں ہے۔ اب لوگوں کے لیے اس جیسے کا اختیار و انتخاب کہاں ممکن ہے؟ ہم امام رضا علیہ السلام کے بارے میں اپنی گفتگو کو بس یہیں ختم کرتے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کے سوالات اور جوابات میں سے کچھ شیخ صدوق کی کتاب عيون اخبار الرضا میں موجود ہیں اگر آپ چاہیں تو کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اور جہاں تک مامون کے امام رضا علیہ السلام کے ساتھ سلوک، امام رضا کی ولی عہدی اور زہر سے شہید کیے جانے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں کتاب الشيعة والحاكمون کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے