آئمہ معصومین (ع) کا علمی مقام:
شیعہ عقائد کے مطابق، آئمہ معصومین (ع) اللہ کے برگزیدہ ہستیاں ہیں، جو نبی اکرم (ص) کے بعد امت کی ہدایت اور رہنمائی کے منصب پر فائز ہیں۔ ان کا علم بلند ترین درجے پر ہے کیونکہ ان کا علم، انبیاء (ع) کے علم کی طرح، براہِ راست اللہ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔
امام سجاد (ع) اس بارے میں فرماتے ہیں:”ہم اللہ کے برگزیدہ اور رسول اللہ (ص) کے جانشین ہیں، اور ہم ہی قرآن اور دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں۔ ہم علم کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں اور تمام انبیاء (ع) کا علم ہمارے پاس محفوظ ہے۔”
امام سجاد (ع) اور علمی نشر و اشاعت کی محدودیت:
اگرچہ امام سجاد (ع) کے پاس انبیاء (ع) کا علم موجود تھا، لیکن ظالم حکمرانوں کے جبر، سخت حالات اور لوگوں کے امام سے محدود تعلق کی وجہ سے، آپ کو اپنا علمی ورثہ وسیع علمی حلقوں میں منتقل کرنے کے کم مواقع ملے۔
امام سجاد (ع) کی وفات کے وقت، جب آپ شدید بیماری کی حالت میں تھے، آپ کے کچھ شیعہ عیادت کے لیے حاضر ہوئے۔ اس موقع پر امام (ع) نے اپنے فرزند، امام باقر (ع) کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:”اس صندوق کو اپنے پاس محفوظ رکھو۔ اس میں سونا اور چاندی نہیں بلکہ علم و دانش کے خزانے موجود ہیں۔”
امام سجاد (ع) کی علمی میراث:
یہی وہ علوم تھے جو بعد میں امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کے ذریعے امت مسلمہ تک پہنچے، جن میں فقہ، تفسیر، عقائد، اخلاق اور دیگر اسلامی معارف شامل تھے۔
امام سجاد (ع) کا علمی مقام حتیٰ کہ مخالفین کی نظر میں:
امام سجاد (ع) کا علم اور فضائل صرف ان کے دوستوں اور شیعوں تک محدود نہ تھے، بلکہ آپ کے علمی کمالات کو وہ لوگ بھی تسلیم کرتے تھے جو آپ کی ولایت کے منکر تھے یا خاندان رسالت (ع) کے مخالف تھے۔
مثال کے طور پر، جب رومی بادشاہ نے عبدالملک بن مروان کو ایک مشکل سوال بھیجا، تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہا۔ بالآخر، اس نے امام سجاد (ع) سے رجوع کیا اور آپ کے دیے گئے جواب کو امپراتور روم کے پاس بھیجا۔
امام سجاد (ع) اور فقہی مقام:
اگرچہ امام سجاد (ع) کا علم مختلف شعبوں میں نمایاں تھا، لیکن فقہ میں آپ کا مقام سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ آپ کے زمانے میں بہت سے فقہاء موجود تھے، لیکن امام سجاد (ع) کی فقہی مہارت اس قدر نمایاں تھی کہ مشہور عالم ابن جوزی نے آپ کو "سید الفقہاء” (فقہاء کے سردار) کا لقب دیا۔
بہت سے علماء کا کہنا تھا: ما راینا افقه من علی بن الحسین(علیهم السلام) "ہم نے علی بن الحسین (ع) سے زیادہ فقیہ اور دانا کسی کو نہیں پایا۔”
فقہی مرجعیت اور علمی وسعت:
مشہور محدث زهری کہتے ہیں: میں امام علی بن الحسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام (ع) نے مجھ سے پوچھا: "تمہاری اپنے اصحاب کے ساتھ کیا گفتگو ہو رہی تھی؟” میں نے عرض کیا: ہماری بحث واجب روزوں کے بارے میں تھی اور ہم سب کا اتفاق تھا کہ رمضان کے علاوہ کوئی اور واجب روزہ نہیں ہے۔
امام سجاد (ع) نے فرمایا: "یہ بات درست نہیں جو تم نے سمجھی ہے۔ روزے کی چالیس اقسام ہیں۔” پھر امام (ع) نے تفصیل سے تمام اقسام بیان فرمائیں اور ہر ایک پر قرآن کی آیات سے استدلال کیا۔ اس کے بعد فقہائے اہل سنت کے مختلف نظریات بھی بیان فرمائے۔
یہ واضح کرتا ہے کہ امام سجاد (ع) نہ صرف شیعہ فقہاء کے لیے مرجع تھے بلکہ اہل سنت کے فقہاء بھی علمی مسائل میں آپ (ع) سے رجوع کرتے تھے۔ زهری ہی ایک اور موقع پر امام (ع) کے پاس آئے تاکہ غیر ارادی قتل کے حکم کو سمجھ سکیں، جب مقتول ایک غلام ہو۔ امام (ع) نے اس مسئلے کا مکمل شرعی حکم بیان فرمایا۔
باطنی علوم اور اسرار الٰہی:
ائمہ معصومین (ع) ظاہری و باطنی تمام علوم کے حامل تھے، لیکن کچھ علوم ایسے تھے جو صرف مخصوص افراد کو سکھائے جاتے تھے۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:”اللہ کی قسم! ہمارے پاس کچھ الٰہی راز اور علوم ہیں جنہیں ہمیں لوگوں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کی، لیکن ہمیں ایسے لوگ نہ ملے جو ان علوم کو سمجھ سکیں اور ان کا تحمل کر سکیں۔”
امام سجاد (ع) کی طرف بھی بعض اشعار منسوب کیے گئے ہیں جو اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ علم و معرفت کے بعض پہلو عوام کے لیے ظاہر نہیں کیے جا سکتے تھے۔
شاگردوں کی تربیت اور علمی میراث:
ائمہ (ع) جو علوم کا معدن تھے، وہ اپنے علوم کو شاگردوں میں منتقل کرتے رہے، کیونکہ ان کے وجود کی بنیادی حکمت میں "تربیت” بھی شامل تھی۔
امام سجاد (ع) کو اپنے دور کے سب سے مشکل حالات میں قیادت کا فریضہ انجام دینا پڑا۔ عبداللہ بن زبیر کی بغاوت، بنی ہاشم پر اس کے مظالم، مسلم بن عقبہ کا مدینہ پر حملہ اور دیگر سختیوں کی وجہ سے امام (ع) کو علمی و تربیتی سرگرمیوں کے مواقع کم ملے، لیکن اس کے باوجود آپ (ع) نے کئی شاگرد تیار کیے۔
مشہور شیعہ محدث شیخ طوسی اپنی کتاب "رجال” میں امام سجاد (ع) کے 170 شاگردوں کے نام ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نمایاں شخصیات یہ ہیں:
سعید بن مسیب – امام سجاد (ع) نے ان کے بارے میں فرمایا: "یہ گذشتہ امتوں کے علوم میں سب سے زیادہ ماہر ہیں اور اپنے زمانے میں سب سے زیادہ فہیم انسان ہیں۔”
ابوحمزہ ثمالی – امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں: "ابوحمزہ اپنے زمانے میں ویسے ہی تھے جیسے سلمان فارسی، رسول اللہ (ص) کے زمانے میں تھے۔”
ابوخالد کابلی، یحییٰ بن ام طویل، جبیر بن مطعم – امام صادق (ع) نے انہیں امام سجاد (ع) کے سب سے ممتاز شاگردوں میں شمار کیا۔
تحریری میراث: علمی ذخیرہ:
امام سجاد (ع) کی علمی میراث کا سب سے قیمتی حصہ وہ کتابیں ہیں جو آج بھی امت مسلمہ کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم یہ دو کتابیں ہیں:
صحیفہ کاملہ سجادیہ – یہ دعاؤں کا مجموعہ ہے جو صرف روحانی عبادات نہیں بلکہ ایک عظیم فکری، سماجی اور تربیتی منشور بھی ہے۔
رسالہ الحقوق – اس میں انسانی حقوق کی تفصیل، والدین، اولاد، اساتذہ، پڑوسی، حکومت اور عوام کے حقوق کے حوالے سے قیمتی تعلیمات شامل ہیں۔
یہ تمام علمی میراث امام سجاد (ع) کی گہرائی، بصیرت اور ان کے علم کے عظیم خزانے کی گواہی دیتی ہیں۔
امام سجاد (ع) اور دعا کی اہمیت:
دعا کرنا، خدا سے مدد طلب کرنا، اور مشکلات و حاجات کے وقت اس کو پکارنا ایک فطری جذبہ ہے۔ جب انسان تمام ظاہری اسباب سے مایوس ہو جاتا ہے اور تمام راستے بند نظر آتے ہیں، تو اس کے دل میں خودبخود ایک اعلیٰ قدرت کی طرف رجوع کرنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت انسان اپنے ہاتھ بارگاہِ الٰہی میں بلند کرتا ہے، اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے مدد مانگتا ہے۔
حقیقت میں دعا کے ذریعے انسان کا دل سخت حالات میں سکون پاتا ہے، بے چینی کم ہو جاتی ہے، اور روح کو ایک مضبوط سہارا مل جاتا ہے۔ ماہرین نفسیات اور دانشور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ دعا روح کی بہترین غذا اور تھکے ماندہ دلوں کے لیے باعثِ نشاط ہے۔ دعا، اندرونی دکھوں کو تسکین دیتی ہے اور مصیبتوں کے دباؤ کو کم کرتی ہے۔
صحیفہ سجادیہ: علمی اور روحانی سرمایہ:
مشہور اہل سنت عالم اور تفسیر "الجواہر” کے مصنف کا واقعہ اس حقیقت کی بہترین مثال ہے۔ جب حوزہ علمیہ قم سے "صحیفہ سجادیہ” کا ایک نسخہ انہیں بھیجا گیا اور انہوں نے اس عظیم کتاب کو پڑھا، تو انہوں نے لکھا:
"میں نے اس کتاب کو انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ ہاتھوں میں لیا۔ میں نے اسے ایک بے مثال کتاب پایا جو ایسے علوم، معارف اور حکمتوں پر مشتمل ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ملتے۔ حقیقت میں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے اب تک اس عظیم الشان نبوی اور اہل بیت کے علمی ورثے تک رسائی حاصل نہیں کی تھی۔”
یہی وجہ ہے کہ امام سجاد (ع) کے علمی اور اخلاقی ورثے کو اسلامی اور دینی متون میں محفوظ کر لیا گیا، جو ان کے بلند علمی مقام اور عظیم اخلاقی و روحانی فضائل کا بہترین ثبوت ہے۔
امام سجاد (ع) کے علمی کردار کی دو بڑی جہات:
امام سجاد (ع) کی زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اپنی علمی زندگی میں دو بنیادی کردار ادا کیے:
۱۔ سابقہ علمی ورثے کو جاری رکھنا
امام (ع) نے ان افراد کی علمی تربیت جاری رکھی جنہوں نے رسول اللہ (ص)، امیر المؤمنین علی (ع)، امام حسن (ع)، اور امام حسین (ع) کے زمانے کو پایا تھا۔ یہ افراد اپنی فکری، اعتقادی اور دینی بنیادوں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے امام سجاد (ع) کو اپنا علمی و روحانی مرجع مانتے تھے۔ ان میں نمایاں نام یہ ہیں:
سلیم بن قیس ہلالی
ابوالاسود دئلی
حبیب بن ابی ثابت
۲۔ نئی نسلوں کی فکری و علمی بنیادوں کو مضبوط کرنا
امویوں اور مروانیوں کے ظالمانہ دور میں ایک نئی نسل دینی اور ثقافتی ماحول میں قدم رکھ رہی تھی۔ امام سجاد (ع) کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان لوگوں کو حقیقی علم اور معرفت کی طرف متوجہ کریں اور انہیں اس علم نبوی کی طرف لے آئیں جس کے وہ وارث تھے۔ امام (ع) نے ان ذہنوں کی آبیاری کی جو بعد میں امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کے علمی مکتب کے مضبوط ستون بنے۔
شیعہ علمی و ثقافتی تحریک کی بنیاد:
کربلا کے بعد شیعہ سیاسی تحریک کو بظاہر ایک شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن امام سجاد (ع) نے ایک نئی علمی و فکری تحریک کا آغاز کیا جو بعد میں امام باقر (ع) کے ذریعے مستحکم ہوئی اور امام صادق (ع) کے زمانے میں اپنی بلندیوں کو پہنچ گئی۔
یہ امام سجاد (ع) کی حکمت و بصیرت تھی کہ انہوں نے ظلم و جبر کے ماحول میں بھی علمی احیاء کی ایک عظیم تحریک برپا کی، جو رہتی دنیا تک اسلامی علوم و معارف کا سر چشمہ بنی رہے گی۔
تحریر: محمد جواد حبیب








