جب کربلا کا افق لہو سے سرخ اور دلوں پر یاس کا سایہ چھا گیا، جب خیموں کی راکھ میں امید کی آخری کرنیں بجھ چکی تھیں، تب ایک خاموش، بیمار، مگر نورانی چہرہ ظہور میں آیا — وہ نوجوان جس کے سجدے زمین کی گہرائی تک اثر کرتے تھے اور جس کی دعا نے امت کے بکھرے ضمیر کو جھنجھوڑا؛ یہ وہی فرزندِ حسینؑ ہیں جنہیں تاریخ نے زین العابدینؑ کے نام سے یاد رکھا۔
امام زین العابدینؑ نے کربلا کے بعد دنیا کو یہ سکھایا کہ دین کا تحفظ صرف میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ محرابِ عبادت میں بھی ہوتا ہے۔ اُن کے سجدوں نے تلواروں سے زیادہ گہرا زخم باطل کے دل پر لگایا، اور اُن کی دعاؤں نے خاموشی میں انقلاب برپا کیا۔
قرآن میں جن بندگانِ خدا کو “عبادُ الرحمٰن” کہا گیا، ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا:“وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا” (الفرقان: 63) یعنی “رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں، اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں۔” یہی وصف امام زین العابدینؑ کی سیرت میں پوری طرح جلوہ گر تھا۔ نہ سختی، نہ انتقام، نہ تلخی۔ یزید کے دربار میں وہی امام کھڑے تھے جن کے سامنے خنجر بھی تھے اور طعن بھی، مگر لبوں پر صرف ذکرِ خدا اور جملہ تھا: “أنا ابن من قُتِل صبرًا” یعنی “میں اس کا بیٹا ہوں جو صبر کے ساتھ قتل کیا گیا۔”
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “علی بن الحسین سید العابدین” (المستدرک للحاکم، ج3، ص177) اور ایک اور روایت میں آیا: “إذا كان يوم القيامة نادى منادٍ: ليقم سيد العابدين فيقوم علي بن الحسين” (کنز العمال، ج13، ص108) یعنی “قیامت کے دن منادی ندا دے گا کہ عبادت گزاروں کے سردار کھڑے ہوں، تو علی بن الحسین کھڑے ہوں گے۔” یہی لقب “زین العابدین” اور “سید الساجدین” آپؑ کی پہچان بن گیا۔ جس امت نے امام حسینؑ کو قتل کیا، اسی امت کے دلوں میں امام زین العابدینؑ نے دعاؤں کے ذریعے قرآن کی روح دوبارہ زندہ کر دی۔
کربلا کے بعد امامؑ کے پاس تلوار نہیں تھی مگر زبانِ دعا تھی، جو ظلم کے مقابلے میں روح کی تلوار بن گئی۔ آپؑ کی دعاؤں کا مجموعہ “صحیفۂ سجادیہ” درحقیقت قرآن کی عملی تفسیر اور محمدی روح کی بازگشت ہے۔ ہر دعا میں عبادت کا رنگ، اخلاق کی خوشبو اور معرفت کا نغمہ سنائی دیتا ہے۔ امامؑ نے فرمایا:“اللّٰهمّ اجعلني أخشاك كأنّي أراك” (صحیفہ سجادیہ، دعا 47)یعنی “پروردگار! مجھے ایسا بنا دے کہ میں تجھ سے ایسے ڈروں جیسے میں تجھے دیکھ رہا ہوں۔”
یہی خشیتِ الٰہی قرآن کی اس آیت کا مظہر ہے:“إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ” (فاطر: 28)“اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہیں۔”
امامؑ کی عبادت محض ظاہری نہیں بلکہ علم و معرفت کے عروج کے ساتھ تھی۔ آپؑ راتوں کو قیام فرماتے، دن میں روزے رکھتے، اور غلاموں کو آزاد کر کے ان کے لیے دعا کرتے۔ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں: “جب آپؑ وضو فرماتے تو چہرہ زرد ہو جاتا۔ پوچھا گیا مولا! یہ کیفیت کیوں ؟
فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ کس کے سامنے کھڑا ہونے جا رہا ہوں؟” (مناقب آل ابی طالب، ج4، ص154) یہ کیفیت دراصل خشوع اور معرفت کا امتزاج تھی۔
کربلا کے بعد قید و بند، کوفہ و شام کے سفر، زنجیروں اور طعنوں کے باوجود امامؑ کی زبان پر صرف ایک جملہ تھا: “الحمد للہ علی کل حال” — “ہر حال میں اللہ کا شکر ہے۔” یہی قرآن کا پیغام ہے:“وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ” (البقرہ: 155-156)۔
امامؑ نے دکھوں کے بیچ بھی امت کو یہ سکھایا کہ صبر ہی عبادت کی معراج ہے۔
جب امت بنو امیہ کے ظلم سے اندھی ہو چکی تھی اور خطیب منبروں پر حق کو باطل سے بدل رہے تھے، تب امام زین العابدینؑ نے خاموش انقلاب برپا کیا۔
یزید کے دربار میں آپؑ نے فرمایا:“أنا ابن مكة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن من حمل الركن بأطراف الردا”(الاحتجاج للطبرسی، ج۲، ص۳۰۷)ترجمہ: “میں مکہ اور منیٰ کا بیٹا ہوں، میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں، میں اُس کا بیٹا ہوں جس نے کعبہ کے رکنِ حجرِ اسود کو اپنے ہاتھوں سے اٹھایا۔”
یہ جملے سن کر دربار لرز اٹھا، لوگوں پر گریہ طاری ہو گیا، اور بنی امیہ کی رعونت پاش پاش ہو گئی۔
ایک دن ایک شخص نے امامؑ کو گالی دی۔ امامؑ خاموشی سے اس کے گھر گئے اور فرمایا: “اگر میری کسی بات نے تمہیں تکلیف دی ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔” وہ شخص رونے لگا اور بولا: “اے فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ! میں نے آپ پر ظلم کیا، اور الٹا آپ معافی کے طلبگار ہیں!” یہی وہ عفو ہے جس کے بارے میں قرآن فرماتا ہے:“ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ” (حم السجدہ: 34)“برائی کا بدلہ بھلائی سے دو۔”
اہلِ مدینہ روایت کرتے ہیں کہ امامؑ کے ماتھے پر سجدوں کا نشان واضح تھا۔ روایت ہے:“كان علي بن الحسين إذا قام في صلاته يرتعد من خشية الله” (حلیة الأولیاء، ج3، ص133)“جب امامؑ نماز میں کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا سے لرزتے۔” یہی کیفیت انہیں “زین العابدین” یعنی عبادت گزاروں کی زینت بناتی ہے۔
امامؑ کی دعاؤں میں صرف گریہ نہیں، بلکہ انسانیت کے ہر طبقے کے لیے ھدایت ہے — والدین، پڑوسی، سپاہی، محتاج، گناہگار، سب کے لیے۔ آپ کی امامت صرف کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے راہنما اور رحمت تھی۔
مدینہ کی فضائیں اس دن ساکت ہو گئیں جب امام زین العابدینؑ نے فرمایا: “اللّٰهمّ تقبّلني قبولاً حسناً” اور روح آسمان کی طرف پرواز کر گئی۔ آپؑ نے عبادت کو سیاست، دعا کو جہاد اور علم کو انقلاب میں بدل دیا۔ آپؑ نے کربلا کے خون کو قرآن کی روشنی سے جوڑا۔
امام زین العابدینؑ کا پیغام یہ ہے کہ جب ظلم بڑھ جائے، جب زبانیں بند ہو جائیں تو سجدہ سب سے بڑی مزاحمت بن جاتا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ طاقت صبر سے برتر نہیں، عبادت انقلاب سے کم نہیں، اور دعا تلوار کی طرح مؤثر ہے۔
زین العابدین علیہ السلام — مناجاتِ عارفین اور اخلاقِ انسانیت:
امام زین العابدینؑ کی حیاتِ طیبہ کا دوسرا باب دراصل اسلام کے باطنی جہاد کی کہانی ہے۔ کربلا کے میدان میں تلواروں نے خون بہایا تھا، مگر کربلا کے بعد امامؑ نے دعا کے الفاظ سے دلوں کا تزکیہ کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب منبر خاموش تھے، زبانیں خوف سے بند تھیں، اور امامت نے اپنی تعلیم کو اشک، مناجات اور اخلاق کی زبان میں منتقل کیا۔
امام زین العابدینؑ کی دعائیں محض الفاظ نہیں بلکہ روح کی نجات کی راہیں ہیں۔ “صحیفہ سجادیہ” جسے “زبورِ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ” کہا جاتا ہے، انسان کو بندگی، معرفت اور انسانیت کے بلند ترین مقام تک پہنچاتی ہے۔ امامؑ فرماتے ہیں:“اللّٰهمّ اجعلني من أحسن عبيدك نصيبًا عندك، وأقربهم منزلةً منك، وأخصّهم زلفى لديك” (صحیفہ سجادیہ، دعا 20)یعنی “پروردگار! مجھے اپنے بندوں میں ان میں شامل فرما جن کا حصہ تیرے قرب میں سب سے زیادہ ہے۔”
یہی وہ مقام ہے جسے قرآن “قربتِ الٰہی” کا نام دیتا ہے:“كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ” (العلق: 19)“سجدہ کر اور اپنے رب کے قریب ہو جا۔”
امامؑ کی مناجاتِ خمسہ عشرہ، معرفتِ نفس اور تزکیۂ باطن کی لازوال درس گاہ ہے۔ “مناجات التائبین” میں امامؑ فرماتے ہیں:“إلهي ألبستني الخطايا ثوب مذلّتي، وجللني التباعد منك لباس مسكنتي”“اے میرے خدا! گناہوں نے مجھے ذلت کا لباس پہنا دیا ہے، اور تیری دوری نے فقیری کا جامہ اوڑھا دیا ہے۔”
یہ وہ فقر ہے جس کے بارے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:“الفقر فخري” (کشف الغمہ، ج2، ص111)“فقر میرا فخر ہے۔”
امامؑ کے اخلاقی کمالات ایسے تھے کہ دشمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ ایک غلام نے کھانا لا کر امامؑ پر شوربہ گرا دیا۔ امامؑ نے فرمایا:“لا بأس، أنت حرٌّ لوجه الله” (ارشاد المفید، ج2، ص147)“کوئی بات نہیں، تم اللہ کے لیے آزاد ہو گئے۔”
یہ وہ حلم ہے جسے قرآن میں فرمایا:“وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ” (آل عمران: 134)“جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔”
امامؑ راتوں کو خود اپنے کندھوں پر آٹا اٹھا کر یتیموں کے گھروں تک لے جاتے تھے اور فرماتے:“صدقةٌ في الليل تطفئ غضب الربّ” (بحارالانوار، ج46، ص83)“رات کی صدقہ رب کے غضب کو بجھاتی ہے۔”
امامؑ نے اپنے شاگردوں جیسے ابو خالد کابلی، سعید بن جبیر، اور زرارہ بن اعین کو علم و معرفت کے چراغ عطا کیے۔ آپؑ فرماتے ہیں:“ابن آدم! إنك لا تزال بخير ما كان لك واعظ من نفسك” (تحف العقول، ص282)“اے ابنِ آدم! تو ہمیشہ خیر میں ہے جب تک تیرا نفس تجھے نصیحت کرتا رہے۔”
یہ قرآن کی آیت “قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا” (الشمس: 9) کی عملی تشریح ہے۔
کربلا کے بعد طعن و تشنیع کے جواب میں بھی امامؑ کا لب و لہجہ ایمان سے لبریز رہا۔ فرمایا:“إنّ لنا مع الله وقتاً، فإن عشنا رأينا ما نحبّ، وإن متنا فلله ما نحبّ” (عیون اخبار الرضا، ج2، ص53)“ہماری اللہ کے ساتھ ایک ملاقات طے ہے، اگر زندہ رہے تو وہ دیکھیں گے جو ہم چاہتے ہیں، اور اگر مر گئے تو ہم اسی کے پاس جائیں گے جسے ہم چاہتے ہیں۔”
امامؑ فرماتے ہیں:“ابن آدم! أنت في دارٍ قلعتك عنها، وفي طريقٍ إلى دارٍ أخلدك فيها” (تحف العقول، ص283)“اے ابن آدم! تو اس گھر میں ہے جہاں سے تجھے جانا ہے، اور اس راستے پر ہے جو تجھے ہمیشہ کے گھر تک لے جائے گا۔”
یہی بندگی کا فلسفہ ہے — کہ دنیا قید ہے اور عبدِ خدا کی آزادی صرف قربِ الٰہی میں ہے۔
جب وقتِ وصال قریب آیا تو امامؑ نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا:“اللّٰهمّ تقبّلني قبولاً حسناً”پھر مسکرا کر روح خالق کے حضور روانہ کر دی۔
آپؑ نے دعا کو جہاد اور عبادت کو سیاست میں بدل دیا۔ مدینہ خاموش ہو گیا، مگر تاریخ نے ان کے نالۂ نیم شب میں حیاتِ امت کی صدا سنی۔
درسِ امام زین العابدینؑ
امام زین العابدینؑ نے امت کو یہ پیغام دیا کہ جب ظلم بڑھ جائے تو سجدہ سب سے بڑی مزاحمت بن جاتا ہے۔
• عبادت انسان کی اصل پہچان ہے۔
• صبر ایمان کا تاج ہے۔
• دعا انقلاب کی بنیاد ہے۔
• اور بندگی آزادی کی کنجی ہے۔
تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری








