حضرت امام حسن عسکری ع کی ولادت اور بچپن کے بعض حالات:
علماء فریقین کی اکثریت کااتفاق ہے کہ آپ بتاریخ ۱۰/ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری یوم جمعہ بوقت صبح بطن جناب حدیثہ خاتون سے بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں ملاحظہ ہوشواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، نورالابصارص ۱۱۰ ، جلاء العیون ص ۲۹۵ ، ارشادمفید ص ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ ص ۱۶۳۔
آپ کی ولادت کے بعد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کے رکھے ہوئے ”نام حسن بن علی“ سے موسوم کیا (ینابع المودة)۔
آپ کی کنیت اور آپ کے القاب:
آپ کی کنیت ”ابومحمد“ تھی اورآپ کے القاب بے شمارتھے جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اورابن الرضا زیادہ مشہورہیں (نورالابصار ص ۱۵۰ ،شواہدالنبوت ص ۲۱۰ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۲۲ ،مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۲۵) ۔
آپ کالقب عسکری اس لئے زیادہ مشہور ہوا کہ آپ جس محلہ میں بمقام ”سرمن رائے“ رہتے تھے اسے عسکرکہاجاتاتھا اوربظاہراس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پرلشکرجمع کیاتھا اورخو دب ھی قیام پذیرتھاتواسے ”عسکر“ کہنے لگے تھے، اورخلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کومدینہ سے بلوا کر یہیں مقیم رہنے پرمجبور کیا تھا نیز یہ بھی تھا کہ ایک مرتبہ خلیفہ وقت نے امام زمانہ کواسی مقام پر نوے ہزار لشکر کا معائنہ کرایا تھا اور آپ نے اپنی دوانگلیوں کے درمیان سے اسے اپنے خدائی لشکر کا مطالعہ کرادیا تھا انہیں تمام باتوں کی بناپراس مقام کا نام عسکر ہوگیا تھا جہاں امام علی نقی اورامام حسن عسکری علیہما السلام مدتوں مقیم رہ کرعسکری مشہور ہو گئے (بحارالانوارجلد ۱۲ ص ۱۵۴ ،وفیات الاعیان جلد ۱ ص ۱۳۵ ،مجمع البحرین ص ۳۲۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۶۳ ، تذکرة ا لمعصومین ص ۲۲۲) ۔
چار ماہ کی عمر اور منصب امامت:
حضرت امام حسن عسکری ع کی عمرجب چارماہ کے قریب ہوئی توآپ کے والدامام علی نقی علیہ السلام نے اپنے بعدکے لیے منصب امامت کی وصیت کی اور فرمایا کہ میرے بعد یہی میرے جانشین ہوں گے اوراس پربہت سے لوگوں کو گواہ کر دیا(ارشادمفید ۵۰۲ ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۶۳ بحوالہ اصول کافی)۔
امام حسن عسکری ع کے ساتھ بادشاہان وقت کاسلوک اور طرز عمل:
جس طرح آپ کے آباؤ اجداد کے وجود کو ان کے عہد کے بادشاہ اپنی سلطنت اورحکمرانی کی راہ میں روڑا سمجھتے رہے ان کایہ خیال رہاکہ دنیاکے قلوب ان کی طرف مائل ہیں کیونکہ یہ فرزند رسول اور اعمال صالح کے تاجدار ہیں لہذا ان کو عام لوگوں کی نظروں سے دوررکھا جائے ورنہ امکان قوی ہے کہ لوگ انہیں اپنا بادشاہ وقت تسلیم کرلیں گے اس کے علاوہ یہ بغض و حسد بھی تھا کہ ان کی عزت بادشاہ وقت کے مقابلہ میں زیادہ کی جاتی ہے اوریہ کہ امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ) انہیں کی نسل سے ہوں گے جو سلطنتوں کا خاتمہ کریں گے۔ انہیں تصورات کے سبب جس طرح آپ کے بزرگوں کو چین نہ لینے دیا گیا اور انہیں ہمیشہ مصائب کی آماجگاہ بنائے رکھااسی طرح آپ کے عہد کے بادشاہوں نے بھی آپ کے ساتھ کیا عہد واثق میں آپ کی ولادت ہوئی اورعہد متوکل کے کچھ ایام میں بچپنا گزرا، متوکل جو آل محمد کا جانی دشمن تھا اس نے صرف اس جرم میں کہ آل محمد کی تعریف کی ہے ابن سکیت شاعرکی زبان گدی سے کھنچوالی (ابوالفداء جلد ۲ ص ۱۴)۔
اس نے سب سے پہلے تو آپ پریہ ظلم کیا کہ چارسال کی عمرمیں ترک وطن کرنے پرمجبورکیا یعنی امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سامرہ بلوا لیا جن کے ہمراہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو لازما جانا تھا پھر وہاں آپ کے گھر کی لوگوں کے کہنے سننے سے تلاشی کرائی اور اپ کے والد ماجد کو وحشی جانوروں سے پھڑوا ڈالنے کی کوشش کی،غرضکہ جو جو سعی آل محمد کو ستانے کی ممکن تھی وہ سب اس نے اپنے عہد حیات میں کر ڈالی اس کے بعد اس کا بیٹا مستنصر خلیفہ ہوا یہ بھی اپنے پاپ کے نقش قدم پرچل کر آل محمد کو ستانے کی سنت ادا کرتا رہا اوراس کی مسلسل کوشش یہی رہی کہ ان لوگوں کو سکون نصیب نہ ہونے پائے اس کے بعد مستعین کا جب عہد آیا تو اس نے آپ کے والد ماجد کو قیدخانہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ یہ سعی پیہم کی کہ کسی صورت سے امام حسن عسکری کو قتل کرادے اور اس کے لیے اس نے مختلف راستے تلاش کیے۔
ملاجامی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس نے اپنے شوق کے مطابق ایک نہایت زبردست گھوڑا خریدا، لیکن اتفاق سے وہ کچھ اس درجہ سرکش نکلاکہ اس نے بڑے بڑے لوگوں کوسواری نہ دی اور جو اس کے قریب گیا اس کو زمین پردے مار کر ٹاپوں سے کچل ڈالا، ایک دن خلیفہ مستعین باللہ کے ایک دوست نے رائے دی کہ امام حسن عسکری کو بلا کر حکم دیا جائے کہ وہ اس پرسواری کریں، اگر وہ اس پرکامیاب ہوگئے تو گھوڑا رام ہو جائے گا اور اگر کامیاب نہ ہوئے اور کچل ڈالے گئے تو تیرا مقصد پورا ہوجائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن اللہ رے شان امامت جب آپ اس کے قریب پہنچے تووہ اس طرح بھیگی بلی بن گیا کہ جیسے وہ کبھی وحشی ہی نہ رہا ہو۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس کے پاس اس کے سواکوئی اور چارہ نہ تھا کہ گھوڑاحضرت ہی کے حوالے کردے (شواہدالنبوت ص ۲۱۰) ۔
پھرمستعین کے بعد جب معتز باللہ خلیفہ ہوا تو اس نے بھی آل محمد کو ستانے کی سنت جاری رکھی اور اس کی کوشش کرتا رہا کہ عہدحاضر کے امام زمانہ اور فرزند رسول امام علی نقی علیہ السلام کو شہید کردے۔ چنانچہ ایساہی ہوا اور اس نے ۲۵۴ ہجری میں آپ کے والد بزرگوار کو زہر سے شہید کرا دیا، یہ ایک ایسی مصیبت تھی کہ جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو بے انتہا غم میں مبتلا کر دیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعدامام حسن عسکری علیہ السلام خطرات میں محصور ہوگئے کیونکہ حکومت کا رخ اب آپ ہی کی طرف تھا۔ معتز نے ایک شقی ازلی اور ناصب ابدی ابن یارش کی حراست اور نظربندی میں امام حسن عسکری کو دیدیا اس نے آپ کو ستانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن آخر میں وہ آپ کا معتقد بن گیا،آپ کی عبادت گزاری اور روزہ داری نے اس پر ایسا گہرا اثر کیا کہ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لی اور آپ کودولت سرا تک پہنچادیا۔
علی بن محمد زیاد کا بیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھاتھا کہ تم خانہ نشین ہوجاؤ کیونکہ ایک بہت بڑا فتنہ اٹھنے والا ہے غرضکہ تھوڑے دنوں کے بعد ایک عظیم ہنگامہ برپاہوا اور حجاج بن سفیان نے معتز کو قتل کردیا۔ (کشف الغمہ ص ۱۲۷)
پھر جب مہدی باللہ کا عہد آیا تواس نے بھی بدستور اپنا عمل جاری رکھا اور حضرت کو ستانے میں ہرقسم کی کوشش کرتا رہا ایک دن اس نے صالح بن وصیف نامی ناصبی کے حوالہ آپ کو کر دیا اور حکم دیا کہ ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستائے، صالح کے مکان کے قریب ایک بدترین حجرہ تھا جس میں آپ قید کئے گئے صالح بدبخت نے جہاں اور طریقہ سے ستایا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ کو کھانا اور پانی سے بھی تنگ رکھتا تھا آخر ایسا ہوتا رہا کہ آپ تیمم سے نماز ادا فرماتے رہے ایک دن اس کی بیوی نے کہاکہ اے دشمن خدایہ فرزند رسول ہیں ان کے ساتھ رحم کا برتاؤ کر، اس نے کوئی توجہ نہ کی ایک دن کا ذکرہے کہ بنی عباسیہ کے ایک گروہ نے صالح سے جاکر درخواست کی کہ حسن عسکری پر زیادہ ظلم کیا جانا چاہئے اس نے جواب دیا کہ میں نے ان کے اوپر دو ایسے لوگوں کو مسلط کر دیا ہے جن کا ظلم و تشدد میں جواب نہیں ہے، لیکن میں کیا کروں، کہ ان کے تقوی اور ان کی عبادت گذاری سے وہ اس درجہ متاثر ہوگئے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں، میں نے ان سے جواب طلبی کی تو انہوں نے قلبی مجبوری ظاہر کی یہ سن کروہ لوگ مایوس واپس گئے۔ (تذکرة المعصومین ص ۲۲۳)
غرض کہ مہدی کا ظلم و تشدد زوروں پر تھا اوریہی نہیں کہ وہ امام علیہ السلام پرسختی کرتا تھا بلکہ یہ کہ وہ ان کے ماننے والوں کو برابر قتل کررہا تھا.
ایک دن آپ کے ایک صحابی احمد بن محمد نے ایک عریضہ کے ذریعہ سے اس کے ظلم کی شکایت کی، توآپ نے تحریر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں کہ مہدی کی عمر اب صرف پانچ دن باقی رہ گئی ہے چنانچہ چھٹے دن اسے کمال ذلت و خواری کے ساتھ قتل کر دیا گیا (کشف الغمہ ص ۱۲۶)۔ اسی کے عہدمیں جب آپ قیدخانہ میں پہنچے توعیسی بن فتح سے فرمایا کہ تمہاری عمر اس وقت ۶۵ سال ایک ماہ دو روز کی ہے اس نے نوٹ بک نکال کراس کی تصدیق کی پھر آپ نے فرمایا کہ خدا تمہیں اولاد نرینہ عطاکرے گا وہ خوش ہو کر کہنے لگا مولا!کیاآپ کوخدافرزندنہ دے گا آپ نے فرمایاکہ خداکی قسم عنقریب مجھے مالک ایسافرزندعطاکرے گا جوساری کائنات پرحکومت کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا (نورالابصارص ۱۰۱) پھرجب اس کے بعد معتمد خلیفہ ہوا تو اس نے امام علیہ السلام پر ظلم و تشدد و استبداد کا خاتمہ کردیا۔
حضرت امام حسن عسکری ع اورخصوصیات مذہب:
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہمارے مذہب میں ان لوگوں کا شمار ہوگا جو اصول و فروع اور دیگر لوزم کے ساتھ ساتھ ان دس چیزوں کے قائل ہوں بلکہ ان پرعامل ہوں گے۔:
۱ ۔ شب و روز میں ۵۱/ رکعت نماز پڑھنا۔
۲ ۔سجدگاہ کربلا پرسجدہ کرنا۔
۳ ۔ داہنے ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا۔
۴ ۔اذان و اقامت کے جملے دودو مرتبہ کہنا۔
۵ ۔ اذان و اقامت میں حی علی خیرالعمل کہنا۔
۶ ۔ نماز میں بسم اللہ زور سے پڑھنا۔
۷ ۔ نماز کی دوسری رکعت میں قنوت پڑھنا۔
۸ ۔ آفتاب کی زردی سے پہلے نماز عصر اور تاروں کے ڈوب جانے سے پہلے نماز صبح پڑھنا۔
۹ ۔سراورڈاڑھی میں وسمہ کاخضاب کرنا۔
۱۰ ۔ نماز میت میں پانچ تکبیر کہنا (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۷۲) ۔
حضرت امام حسن عسکری ع کاعراق کے ایک عظیم فلسفی کوشکست دینا:
مورخین کابیان ہے کہ عراق کے ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کویہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تناقض ثابت کرے اور یہ بتادے کہ قرآن مجید کی ایک آیت دوسری آیت سے، اورایک مضمون دوسرے مضمون سے ٹکراتا ہے اس نے اس مقصدکی تکمیل کے لیے ”تناقض القرآن“ لکھنا شروع کی اور اس درجہ منہمک ہوگیا کہ لوگوں سے ملناجلنا اور کہیں آنا جانا سب ترک کردیا. حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کوجب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کا ارادہ فرمایا، آپ کاخیال تھا کہ اس پرکوئی ایسا اعتراض کر دیا جائے کہ جس کا وہ جواب نہ دے سے اور مجبورا اپنے ارادہ سے باز آئے ۔
اتفاقا ایک دن آپ کی خدمت میں اس کا ایک شاگرد حاضر ہوا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اسحاق کندی کو ”تناقض القرآن“ سے لکھنے سے باز رکھے اس نے عرض کی مولا! میں اس کا شاگرد ہوں، بھلا اس کے سامنے کیسے لب کشائی کرسکتاہوں؟ آپ نے فرمایاکہ اچھا یہ تو کر سکتے ہو کہ جو میں کہوں وہ اس تک پہنچا دو، اس نے کہا کر سکتا ہوں، حضرت نے فرمایا کہ پہلے تو تم اس سے قربت پیدا کرو، اور اس پر اعتبار جماؤ جب وہ تم سے مانوس ہوجائے اور تمہاری بات توجہ سے سننے لگے تو اس سے کہنا کہ مجھے ایک شبہ پیدا ہوگیا ہے آپ اس کودور فرما دیں، جب وہ کہے کہ بیان کرو توکہنا کہ ”ان اتاک ھذا لمتکلم بہذا القرآن ھل یجوز مرادہ بما تکلم منہ عن المعانی التی قد ظننتہا انک ذھبتھا الیہا“
اگر اس کتاب یعنی قرآن کامالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جومطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو، جب وہ تمہارا یہ اعتراض سنے گا تو چونکہ ذہین آدمی ہے فورا کہے گا کہ بے شک ایسا ہو سکتا ہے جب وہ یہ کہے تو تم اس سے کہناکہ پھر کتاب ”تناقض القرآن“ لکھنے سے کیا فائدہ؟ کیونکہ تم اس کے جومعنی سمجھ کر اس پر اعتراض کررہے ہو ، ہوسکتا ہے کہ وہ خدائی مقصود کے خلاف ہو، ایسی صورت میں تمہاری محنت ضائع اور برباد ہوجائے گی کیونکہ تناقض توجب ہو سکتا ہے کہ تمہارا سمجھا ہوا مطلب صحیح اور مقصود خداوندی کے مطابق ہو اورایسا یقینی طور پر نہیں تو تناقض کہاں رہا؟ ۔
الغرض وہ شاگرد ،اسحاق کندی کے پاس گیا اور اس نے امام کے بتائے ہوئے اصول پر اس سے مذکورہ سوال کیا اسحاق کندی یہ اعتراض سن کر حیران رہ گیا اورکہنے لگا کہ پھرسوال کودہراؤ اس نے پھر اعادہ کیا اسحاق تھوڑی دیر کے لیے محو تفکر ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک اس قسم کا احتمال باعتبار لغت اور بلحاظ فکر و تدبر ممکن ہے پھر اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہوکر بولا! میں تمہیں قسم دیتا ہوں تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ کہ تمہیں یہ اعتراض کس نے بتایا ہے اس نے جواب دیا کہ میرے شفیق استاد یہ میرے ہی ذہن کی پیداوار ہے اسحاق نے کہا ہرگز نہیں ، یہ تمہارے جیسے علم والے کے بس کی چیز نہیں ہے، تم سچ بتاؤ کہ تمہیں کس نے بتایا اور اس اعتراض کی طرف کس نے رہبری کی ہے شاگرد نے کہا کہ سچ تویہ ہے کہ مجھے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا اور میں نے انھیں کے بتائے ہوئے اصول پر آپ سے سوال کیا ہے اسحاق کندی بولا ”ان جئت بہ “ اب تم نے سچ کہا ہے ایسے اعتراضات اور ایسی اہم باتیں خاندان رسالت ہی سے برآمد ہو سکتی ہیں ”ثم انہ دعا بالنار و احرق جمیع ما کان الفہ“ پھراس نے آگ منگائی اور کتاب تناقض القرآن کا سارا مسودہ نذر آتش کردیا (مناقب ابن شہرآشوب مازندرانی جلد ۵ ص ۱۲۷ ،بحارالانوار جلد ۱۲ ص ۱۷۲ ،دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۸۳) ۔
اپنے عقیدت مندوں میں حضرت کادورہ حیات:
جعفر بن شریف جرجانی بیان کرتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعد حضرت امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا ،اور ان سے عرض کی کہ مولا! اہل جرجان آپ کی تشریف آوری کے خواستگار ہیں آپ نے فرمایا کہ تم آج سے ایک سو نوے دن کے بعد واپس جرجان پہنچو گے اور جس دن تم پہچو گے اسی دن شام کو میں بھی پہنچ جاؤں گا تم انہیں باخبر کر دینا، چنانچہ ایساہی ہوا میں وطن پہنچ کر لوگوں کو آگاہ کر چکا تھا کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری ہوئی آپ نے سب سے ملاقات کی اور سب نے شرف زیارت حاصل کیا، پھر لوگوں نے اپنی مشکلات پیش کیں امام علیہ السلام نے سب کو مطمئن کردیا اسی سلسلہ میں نصربن جابر نے اپنے فرزند کو پیش کیا، جو نابینا تھا حضرت نے اس کے چہرہ پر دست مبارک پھیر کر اسے بینائی عطا کی پھر آپ اسی روز واپس تشریف لے گئے (کشف الغمہ ص ۱۲۸)۔
ایک شخص نے آپ کوایک خط بلاروشنائی کے قلم سے لکھا آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا اور ساتھ ہی لکھنے والے کا اوراس کے باپ کانام بھی تحریر فرمادیا یہ کرامت دیکھ کروہ شخص حیران ہوگیا اور اسلام لایا اور آپ کی امامت کامعتقد بن گیا(دمعہ ساکبہ ص ۱۷۲) ۔
حضرت امام حسن عسکری ع کی نصیحتیں:
۱ ۔ دو بہترین عادتیں یہ ہیں کہ اللہ پر ایمان رکھے اور لوگوں کو فائدے پہنچائے۔
۲ ۔ اچھوں کو دوست رکھنے میں ثواب ہے۔
۳ ۔ تواضع اور فروتنی یہ ہے کہ جب کسی کے پاس سے گزرے توسلام کرے اور مجلس میں معمولی جگہ بیٹھے۔
۴ ۔ بلاوجہ ہنسنا جہالت کی دلیل ہے۔
۵ ۔ پڑوسیوں کی نیکی کو چھپانا، اوربرائیوں کو اچھالنا ہرشخص کے لیے کمرتوڑ دینے والی مصیبت اور بے چارگی ہے۔
۶ ۔ یہی عبادت نہیں ہے کہ نماز، روزے کو ادا کرتا رہے، بلکہ یہ بھی اہم عبادت ہے کہ خدا کے بارے میں سوچ بچار کرے۔
۷ ۔ وہ شخص بدترین ہے جو دومونہا اوردو زبانا ہو، جب دوست سامنے آئے تواپنی زبان سے خوش کردے اور جب وہ چلاجائے تو اسے کھا جانے کی تدبیر سوچے ،جب اسے کچھ ملے تویہ حسد کرے اور جب اس پر کوئی مصیبت آئے تو قریب نہ پھٹکے۔
۸ ۔ غصہ ہر برائی کی کنجی ہے۔
۹ ۔ حسد کرنے اورکینہ رکھنے والے کو کبھی سکون قلب نصیب نہیں ہوتا۔
۱۰ ۔ پرہیزگار وہ ہے کہ جوشب کے وقت غور و فکر سے کام لے اور ہر امر میں محتاط رہے۔
۱۱ ۔ بہترین عبادت گزار وہ ہے جو فرائض ادا کرتا رہے۔
۱۲ ۔بہترین متقی اور زاہد وہ ہے جو گناہ مطلقا چھوڑ دے۔
۱۳ ۔ جو دنیا میں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا۔
۱۴ ۔ موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے اچھا بوگے تو اچھا کاٹو گے، برا بوگے تو ندامت ہوگی۔
۱۵ ۔ حرص اور لالچ سے کوئی فائدہ نہیں جوملنا ہے وہی ملے گا ۔
۱۶ ۔ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے برکت ہے۔
۱۷ ۔ بیوقوف کا دل اس کے منہ میں ہوتا ہے اورعقلمند کا منہ اس کے دل میں ہوتاہے ۔
۱۸ ۔ دنیا کی تلاش میں کوئی فریضہ نہ گنوا دینا۔
۱۹ ۔ طہارت میں شک کی وجہ سے زیادتی کرنا غیر ممدوح ہے۔
۲۰ ۔ کوئی کتناہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو جب وہ حق کوچھوڑ دے گا ذلیل تر ہو جائے گا۔
معتمد عباسی کی خلافت اور امام حسن عسکری ع کی گرفتاری:
۲۵۶ ہجری میں معتدعباسی خلافت مقبوضہ کے تخت پرمتمکن ہوا، اس نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہی اپنے آبائی طرز عمل کو اختیار کرنا اور جدی کردار کو پیش کرنا شروع کر دیا اور دل سے اس کی سعی شروع کر دی کہ آل محمد کے وجود سے زمین خالی ہوجائے، یہ اگرچہ حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی ملکی بغاوت کا شکار ہوگیا تھا لیکن پھر بھی اپنے اپنے مشن سے غافل نہیں رہا ” اس نے حکم دیا کہ عہد حاضر میں خاندان رسالت کی یادگار، امام حسن عسکری کو قید کردیا جائے اور انہیں قید میں کسی قسم کا سکون نہ دیا جائے۔
آخر امام علیہ السلام بلا جرم و خطا آزاد فضا سے قیدخانہ میں پہنچا دئیے گئے اور آپ پرعلی بن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیا گیا جو آل محمد اور ال ابی طالب کا سخت ترین دشمن تھا اور اس سے کہہ دیا گیا کہ جو جی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پرطرح طرح کی سختیاں شروع کردیں اس نے نہ خدا کا خوف کیا نہ پیغمبر کی اولاد ہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن اللہ رے آپ کا زہد و تقوی کہ دوچار دن میں ہی دشمن کا دل موم ہوگیا اور وہ حضرت کے پیروں پر پڑگیا، آپ کی عبادت گذاری اور تقوی و طہارت دیکھ کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ حضرت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہ سکتا تھا، آپ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے سر جھکا کر آتا اور چلا جاتا، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ دشمن بصیرت آگیں بن کر آپ کا معترف اور ماننے والا ہو گیا (اعلام الوری ص ۲۱۸)۔
ابوہاشم داؤد بن قاسم کابیان ہے کہ میں اور میرے ہمراہ حسن بن محمد القتفی و محمد بن ابراہیم عمری اور دیگر بہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد کی محبت کے جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے امام زمانہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام بھی تشریف لا رہے ہیں ہم نے ان کا استقبال کیا وہ تشریف لاکر قیدخانہ میں ہمارے پاس بیٹھ گئے، اور بیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگریہ شخص نہ ہوتا تو میں تمہیں یہ بتا دیتا کہ اندرونی معاملہ کیا ہے اور تم کب رہا ہو گے لوگوں نے یہ سن کراس اندھے سے کہا کہ تم ذرا ہمارے پاس سے چندمنٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ نابینا قیدی نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے حکومت کا جاسوس ہے اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجود ہیں جواس کی جاسوسی کا ثبوت دیتے ہیں یہ سن کر لوگوں نے اس کی تلاشی لی اور واقعہ بالکل صحیح نکلا ابوہاشم کہتے ہیں کہ ہم قید کے ایام گذار رہے تھے کہ ایک دن غلام کھانا لایا حضرت نے شام کا لیے کھانانہ لوں گا چنانچہ ایساہی ہوا کہ آپ عصر کے وقت قیدخانہ سے برآمد ہو گئے۔ (اعلام الوری ص ۲۱۴) ۔
امام حسن عسکری ع اور قحطی کا زمانہ:
امام علیہ السلام قیدخانہ ہی میں تھے کہ سامرہ میں جو تین سال سے قحط پڑا ہوا تھا اس نے شدت اختیار کر لی اور لوگوں کا حال یہ ہوگیا کہ مرنے کے قریب پہنچ گئے بھوک اور پیاس کی شدت نے زندگی سے عاجز کردیا یہ حال دیکھ خلیفہ معتمد عباسی نے لوگوں کو حکم دیا کہ تین دن تک باہر نکل کر نماز استسقاء پڑھیں چنانچہ سب نے ایساہی کیا ،مگرپانی نہ برسا، چوتھے روز بغداد کے نصاری کی جماعت صحرا میں آئی اور ان میں سے ایک راہب نے آسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کیا، اس کا ہاتھ بلند ہونا تھا کہ بادل چھا گئے اور پانی برسنا شروع ہوگیا اسی طرح اس راہب نے دوسرے دن بھی عمل کیا اور بدستور اس دن بھی باران رحمت کا نزول ہوا، یہ دیکھ کرسب کو نہایت تعجب ہوا حتی کہ بعض جاہلوں کے دلوں میں شک پیدا ہو گیا، بلکہ ان میں سے اسی وقت مرتدہوگئے، یہ واقعہ خلیفہ پربہت شاق گذرا۔
اس نے امام حسن عسکری ع کو طلب کر کے کہا کہ اے ابو محمد اپنے جد کے کلمہ گویوں کی خبر لو، اور ان کو ہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایا کہ اچھا راہبوں کو حکم دیا جائے کہ کل پھر وہ میدان میں آکردعائے باران کریں ،انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کردوں گا، پھر جب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تواس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا، اچانک آسمان پر ابر نمودار ہوئے اور مینہ برسنے لگا یہ دیکھ کر امام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کا ہاتھ پکڑ کر جو چیز راہب کے ہاتھ میں ملے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اور اس سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے راہب سے فرمایا کہ اب تو ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعا کر اس نے ہاتھ اٹھایا تو بجائے بارش ہونے کے آسمان صاف ہوگیا اور دھوپ نکل آئی، لوگ تعجب میں پڑ گئے۔
خلیفہ معتمد نے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ اے ابومحمد یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعا میں کامیاب ہوتا رہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کا یہ اثرہے کہ جب وہ زیر آسمان کھولی جائے گی، توباران رحمت ضرور نازل ہوگا یہ سن کر لوگوں نے اس ہڈی کا امتحان کیا تو اس کی وہی تاثیر دیکھی جوحضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی، اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہو گئے جو پہلے پیدا ہو گئے تھے پھر امام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کولے کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،کشف الغمہ ص ۱۲۹) پھر آپ نے اس ہڈی کو کپڑے میں لپیٹ کردفن کردیا (اخبارالدول ص ۱۱۷) ۔
شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب وعجائب میں اس واقعہ کو صوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھا ہے بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعد آپ نے نماز ادا کی اور دعا فرمائی خداوند عالم نے اتنی بارش کی کہ جل تھل ہوگیا اور قحط جاتا رہا۔
یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قیدسے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایا تھا جو منظور ہو گیا تھا (نورالابصار ص ۱۵۱)۔
ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اور بادل آیا تو آپ نے فرمایا کہ فلاں ملک کے لیے ہے اور وہ وہیں چلا گیا-
امام حسن عسکری ع کی شہادت:
امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری ع قید و بند کی زندگی گزارنے کے دوران میں ایک دن ابو الادیان سے ارشاد فرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفر مدائن سے ۱۵/ روز کے بعد پلٹو گے تو میرے گھر سے شور و بکا کی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔
الغرض امام حسن عسکری ع کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نماز صبح خلعت حیات ظاہری اتار کر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔
علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی (مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نور الابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔
بشکریہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی ویب سائٹ :razavi.aqr.ir