مناجات امام حسین علیہ السلام
1۔”مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ؟ لقد خاب من رضی دونک بدلا”
جس نے تجھے کھو دیا اس نے کیا پایا؟ اور جس نے تجھ کو پالیا اس نے کیا کھویا؟ جو تیرے بدلے میں کسی اور چیز پر راضی ہوا وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔
( دعائے عرفہ) ( بحار الانوار، ج ۹۵ ص ۲۲۶ ح۳)

2۔”اللَّهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِی فِی کُلِّ کَرْبٍ وَ رَجَائِی فِی کُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِی فِی کُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِی ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ “
“اے اللہ! مشکلوں میں تو ہی میراسہارا ہے،سختیوں میں تو ہی میری امید ہے جو کچھ مجھ پر نازل ہورہا ہے اس میں تو ہی میری پناہ گاہ ہے”
( اثبات الھداۃ:ج 2،ص 583)

3۔”صَبراً على قضائِكَ يا ربِّ، لا إلهَ سِواكَ يا غياثَ المُستَغيثينَ، ما لي ربٌّ سِواكَ ولا معبودٌ غيرُكَ”
پالنے والے!تیری قضا پر صبر کرتا ہوں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے،اے فریاد کرنے والوں کی فریاد کو پہنچنے والے تیرے سوا میرا کوئی پروردگار نہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے”
(مقتل الحسین مقرم،ص 283)

4″۔كَيْفَ يُسْتَدَلُّ عَلَيْكَ بِما هُوَ فى وُجُودِهِ مُفْتَقِرٌ اِلَيْكَ، اَيَكُونُ لِغَيْرِكَ مِنَ الظُّهُورِ ما لَيْسَلک فیکون هُوَ الْمُظْهِرَ لَكَ،
“میرے مالک! جو چیزیں اپنے وجود میں تیری محتاج ہیں ان کے ذریعے تیرے وجود پر کیونکر استدلال کیا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی اس قدر آشکار ہے جس طرح تو آشکار ہے؟ تاکہ وہ تیرے اظہار کا ذریعہ بن سکے۔”
( دعائے عرفہ)

5۔”مَتى غِبْتَ حَتّى تَحْتاجَ اِلى دَليل يَدُلُّ عَليْكَ، وَمَتى بَعُدْتَ حَتّى تَكُونَ الاْثارُ هِىَ الَّتى تُوصِلُ اِلَيْكَ”
“(بھلا) تو غائب ہی کب تھا کہ تیرے لئے کسی ایسی دلیل کی ضرورت پڑے جو تیرے اوپر دلالت کرے؟ اور تو دور ہی کب تھا تاکہ آثار کے ذریعے تجھ تک پہونچا جا سکے”
( دعائے عرفہ)

6۔”الهی أنعمتنی فلم تجدنی شاکراً،و أبلیتنی فلم تجدنی صابراً،فلا أنت سلبت النعمة بترک الشکر،
و لا أدمت الشدة بترک الصبر.”
میرے معبود! تو نے مجھے نعمتوں سے نوازا تو مجھے شکر گزار نہ پایا اور تو نے مجھے آزمایا تو صابر نہ پایا لیکن میرے شکر کو چھوڑنے کی وجہ سے تو نے نعمتوں سے محروم نہیں کیا اور میرے صبر کو ترک کرنے کو وجہ سے تو نے سختیوں اور مصیبتوں کو ہمیشہ کے لئے نہیں رکھا”۔
( الکواکب الدریۃ، ج 1، ص 85)

7۔”اللهم ارزقنی الرغبة فی الآخرة،و ارزقنی بصراً فی أمر الآخرة حتی أطلب الحسنات شوقاً، و افر من السیئات خوفاً “
” میرے معبود! مجھے آخرت کی رغبت عطا فرمااور آخرت کے امور کے بارے مجھے بصیرت عنایت فرماتاکہ میں اچھائیوں کو شوق سے بجا لاؤں اور برائیوں سے دور بھاگوں”
(موسوعة کلمات الامام الحسین علیه السلام، ص 809)

8۔”الٰہی علمت باختلاف الاٰثار وتنقلات الاطوار ان مرادک منی ان تتعرف الی فی کل شئی حتی لا اجھلک فی شئی”

اے میرے اللہ! دنیا کے حالات کی تبدیلیوں اور طور طریقوں کے تغیرات کے سبب میں جان گیا ہوں کہ تیری مرضی یہ ہے کہ تو مجھے ہر چیز سے آشنا کرائے تاکہ میں کسی چیز کے بارے میں بھی تیری قدرت سے نا واقف نہ رہوں۔

(دعائے عرفہ)

9۔” اللھم لا تؤدبنی بالبلاء “
خداوند!ا مجھےبلاؤں کے ذریعے نہ آزمانا”
(بحار الانوار؍جلد۷۸؍ ص ۱۲۷)

10۔”اللھم لک الشاکرین ولاٰ لآئک ذاکرین”
اے اللہ !مجھے اپنے شکر گزاروں اور اپنے احسانوں کا ذکر کرنے والوں مںف سے قرار دے۔
(دعائے عرفہ)

عبادت و معرفت
11۔” إِنّ قَوْماً عَبَدُوا اللّهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التّجّارِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ وَ إِنّ قَوْمَاً عَبَدُوا اللّهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَحْرَارِ وَ هِىَ اَفْضَلُ الْعِبَادَةِ”
کچھ لوگ حرص ولالچ کى بنا پر خدا کى عبادت کرتے ہيں، يہ سودا گروں کى عبادت ھےـکچھ لوگ ڈر اور خوف کى وجہ سے خدا کى عبادت کرتے ہيں، يہ غلاموں کى عبادت ہےـکچھ لوگ خدا وندعالم کا شکر بجا لانے کے لئے اس کى عبادت کرتے ہيں،يہ عبادت سب سے بہترين اور آزاد مردوں کى عبادت ہےـ ”
( الکافی، ج 2، ص 89)

12۔’ مَنْ عَبَدَ اللّهَ حَقّ عِبَادَتِهِ آتاهُ اللّهُ فَوْقَ اَمَانِيهِ وَ كِفَايَتِهِ”
” جو شخص اللہ تعالی کی عبادت کا حق ادا کرے اللہ تعالی اسے اسکی خواہشات اور ضرورت سے بڑھ کر عطا کرتا ہے”
( بحار الانوار ج 68، ص 184)

13۔ ” مَا خَلَقَ اللّهُ مِنْ شَىْ‏ءٍ إِلا وَ لَهُ تَسْبِيحٌ يَحْمَدُ بِهِ رَبّهُ”
” جو کچھ اللہ تعالی نے خلق کیا ہے ہر ایک کی اپنی تسبیح ہے جسکے ذریعے وہ اپنے رب کی تعریف و تمجید کرتے ہیں”
( بحار الانوار،ج 61، ص 29)

14۔۔”اَيّهَا النّاسُ! إِنّ اللّهَ جَلّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلاّ لِيَعْرِفُوهُ، فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَا سِوَاهُ”
“اے لوگو! بتحقیق اللہ رب العزت( جسکا ذکرعظیم ہے) نے بندوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لئے تاکہ وہ اسے پہچانیں، جب لوگ اسے پہچانیں گے تو اسکی عبادت کریں گے،اور جب اسکی عبادت کریں گے تو اسکے غیر کی پرستش سے بے نیاز ہوجائیں گے”
( بحار الانوارج 5،ص 312)

15۔”بُكَاءُ الْعُيُونِ وَ خَشْيَةُ الْقُلُوبِ رَحْمَةٌ مِنَ اللّهِ”
” (خوف الہی میں) آنکھوں کا گریہ کرنا اور دلوں پر لرزہ طاری ہونا اللہ تعالی کی رحمتوں میں سے ایک رحمت ہے”
(مستدرك الوسائل، ج ۱۱ ص ۲۴۵ ح۳۵)

16۔”مَنْ طَلَبَ رِضَى النّاسِ بِسَخَطِ اللّهِ وَكَلَهُ اللّهُ إِلىَ النّاسِ”
” جو شخص اللہ تعالی کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنا چاہے تو اللہ اسکو لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑدیتا ہے”
(بحار الانوار، ج 75۔ص 126)

17۔” من طلب رضا اللہ بسخط الناس کفاہ اللہ امورالناس”
” جو شخص اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر لوگوں کی ناراضگی مول لیتا ہے تو لوگوں کے ساتھ معاملات میں اللہ اس کے لئے کافی ہے”
(بحار الانوار،ج 75،ص126)

18۔”مَنْ حَاوَلَ اَمْراً بِمَعْصِيَةِ اللّهِ كَانَ اَفْوَتَ لِمَا يَرْجُوا وَ اَسْرَعَ لِمَا يَحْذَرُ”
“جوشخص گناھوں کے ذریعہ اپنے مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے، اس کی آرزوئیں بہت دیر سے پوری ہوتی ہیں، اور جس چیز سے ڈرتا ہے سب سے پہلے اسی میں گرفتار ہوجاتا ہے”
( بحار الانوار، ج ۷۵ ص ۱۲ ح۱۹ )

19۔”لا يَنْبَغِى لِنَفْسٍ مُؤْمِنَةٍ تَرَى مَنْ يَعْصِى اللّهَ فَلا تُنْكِرُ عَلَيْهِ”
” کسی صاحب ایمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی کو معصیت خدا میں مبتلا دیکھے اور اسے منع نہ کرے”
(كنز العمّال، ج ۳ ص ۸۵ ح۵۶۱۴)

20۔”لا يَكْمُلُ الْعَقْلُ إِلا بِاتّبَاعِ الْحَقّ”
“حق کی اتباع کے بغیر عقل کامل نہیں ہوتی”
(اعلام الدین،ص 298)

21۔ “سئل الحسین بن علی علیھما السلام ما معرفۃ اللہ؟ قال: معرفۃ اھل کل زمانِ امامھم الذی یجب علیھم طاعتہ”
“حضرت امام حسن علہا السلام سے پوچھا گا کہ خدا کی معرفت کاج ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا ہر زمانے کے لوگوں کی اپنے امام کی معرفت جس کی اطاعت ان پر واجب ہوتی ہے۔”
(بحار الانوار؍جلد۲۳,ص 83)

22۔ عن مولانا الحسین علیہ السلام: اذاماعظک الدھر تجنح الیٰ خلق ولا تسأل سوی اللہ تعالیٰ قاسم الرّزق۔
جب زمانہ تمہںا کاٹنے (نقصان پہنچانے) لگے تو مخلوق کی طرف نہ جھکو اور رزق تقسم کرنے والے اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگو۔
( بحار الانوار؍ جلد۷۸ ؍ ص۱۲۳)

23۔”لِکُلِّ داء دَواءٌ، وَ دَواءُ الذُّنُوبِ الإسْتِغْفارِ”
“ہر مرض کی ایک دوا ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے”
(وسائل الشیعہ،ج 16،ص65)

24۔”مَنْ اتَّکلَ عَلی حُسْنِ اخْتیارِ اللَّهِ تَعالی لَهُ لَمْ یتَمَنَّ انَّهُ فی غَیرِ الْحالِ الّتی اخْتارَها اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ لَهُ”
“جو شخص اپنے بارے میں اللہ کے حسن انتخاب پر توکل کرتا ہے تو وہ اللہ عزوجل کےانتخاب کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں کرے گا”
(اعلام الدین ،ص 300)

25۔”دِراسَةُ الْعِلْمِ لِقاحُ الْمَعْرِفَةِ”
“علم حاصل کرنا معرفت کے حصول کا ذریعہ ہے”
(بحار الانوار،ج 75،ص 128)

26۔سئل (ع) فقيل له : كيف أصبحت يا بن رسول الله؟.. قال : أصبحت ولي ربَّ فوقي ، والنار أمامي ، والموت يطلبني ، والحساب محدق بي ، وأنا مرتَهَن بعملي ، لا أجد ما أحب ، ولا أدفع ما أكره ، والأمور بيد غيري ، فإن شاء عذبني وإن شاء عفا عني ، فأي فقير أفقر مني ؟”
امام حسین ؑ سے پوچھا گیا: فرزند رسولؐ!آپ نےکن حالات میں صبح کی؟ تو فرمایا” میں نے اس حال میں صبح کی کہ میری حفاظت کرنے کے لئے ایک رب ہے، میرے سامنے جہنم کی آگ ہے، موت مجھے طلب کر رہی ہے، میرا حساب لکھا جا رہا ہے، میں اپنے عمل کا گروی ہوں، میںاپنی پسند کوحاصل کر نہیں سکتا اور ناپسندیدہ شیء کو خود سے دور نہیں کر سکتا، میرے امور کسی اور کے اختیار میں ہیں اگر وہ چاہے تو مجھے عذاب دے اور اگر وہ چاہے تو مجھ سے در گزر کرے، پس(ایسے میں) مجھ سے بڑھ کر کون فقیر ہوگا؟
( امالی الصدوق،ص 362)

27۔”سئل (ع) عن معنى قول الله : { وأما بنعمة ربك فحدّث } قال (ع) : أمره أن يحدّث بما أنعم الله به عليه في دينه “
امام ؑ سے اللہ تعالی کے اس قول”اور اپنی رب کی نعمتوں کو بیان کرو” کے بارے سوال کیا گیا تو فرمایا۔” اللہ کا یہ امر ہے کہ دین کے اعتبار سے جن نعمتوں سے اس نے نوازا ہے ان کو بیان کیا جائے”
(بحار الانوار ج 78،ص 117)

اہل البیت
28۔”إِنّ حُبّنَا لَتُسَاقِطُ الذّنُوبَ كَمَا تُسَاقِطُ الرّيحُ الْوَرَقَ”
“بتحقیق ہماری محبت گناہوں کو ایسے جھاڑ دیتی ہے جسطرح ہوا پتوں کو جھاڑ دیتی ہے”
( الاختصاص-87)

29۔”نَحْنُ الّذِينَ عِنْدَنَا عِلْمُ الْكِتَابِ وَ بَيَانُ مَا فِيهِ وَ لَيْسَ عِنْدَ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِهِ مَا عِنْدَنَا لاِنّا اَهْلُ سِرّ اللّهِ”
“ہم وہ لوگ ہیں جن کے پاس کتاب(قرآن) اور جو کچھ اس میں ذکرہے ان کا علم ہے جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ دنیا میں کوئی بھی نہیں جانتا کیونکہ ہم اللہ تعالی کے راز ہیں۔”
( بحار الانوار،ج 44،ص 184،ح 12)

30۔”وَ اللّهِ مَا خَلَقَ اللّهُ شَيْئاً إِلا وَ قَدْ اَمَرَهُ بِالطّاعَةِ لَنَا”
“اللہ کی قسم خداوند متعال نے کسی چیز کو خلق نہیں فرمایا مگر یہ کہ اسکو ہماری(اہلیبیتؑ) اطاعت کا حکم دے دیا۔”
(بحار الانوار،ج 44،ص 181،ح 1)

31۔”إِنّ شِيعَتَنَا مَنْ سَلِمَتْ قُلُوبُهمْ مِنْ كُلّ غِشّ وَغَلّ وَدَغَلٍ”
“بے شک وہ لوگ ہمارے شیعہ ہیں جن کے دل خیانت، دھوکہ اور مکر و فریب سے پاک ہو”
( بحار الانوار،ج 65، ص 156)

32۔ “مَنْ اَحَبّنَا كَانَ مِنّا اَهْلَ الْبَيتِ”
‘جو شخص ہم سے محبت کرتا ہے وہ ہم اہل البیتعلیہم السلاممیں سے ہے”
(نزهة النّاظر و تنبيه الخاطر، ص ۸۵ ح۱۹)

33۔ “من احبنا للہ وردنا نحن و ھو علی نبینا ھکذا-(وضم اصبعیہ)”
جو شخص ہم سے محبت کرتا ہے، ہم اور وہ (روز محشر) اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمکے پاس اس طرح وارد ہونگے؛( یہ کہتے ہوئے آپؑ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا دیا)
(امالی الطوسی،ص 354)

34۔ “من اتانا لم یعدم خصلۃ من اربع: آیۃ محکمۃ و قضیۃ عادلۃ و آخا مستفادا ومجالسۃ العلماء”
جوشخص ہمارے پاس آتا ہے تو وہ چار خصلتوں سے محروم نہیں ہوتا: محکم آیات، منصفانہ فیصلے، فائدہ پہنچانے والا دوست اور علماء کی صحبت”
( کشف الغمہ؛ ج 1، ص 575)

35۔” مَا كُنّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّهِ (ص) إِلا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً وَ وُلْدَهُ”
“رسول اللہ( ص)کے زمانے میں ہم منافقین کو صرف اور صرف انکے علیؑ و اولاد علیؑ سے بغض کی بنیاد پر پہچانتے تھے”
( عيون أخبار الرّضا، ج ۲ ص ۷۲ )

36۔” یا اعرابی نحن قوم لا نعطی المعروف الا علی قدر المعرفة “
حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں :” اے اعرابی !ہم اہل بیتعلیہم السلاملوگوں کو (انکی )معرفت کے مطابقعطا کرتے ہیں“۔
(موسوعۃ کلمات امام حسین ع، ص 765)

مکارم اخلاق
37۔”اَلْخُلْقُ الْحَسَنُ عِبَادَةٌ وَ الصّمْتُ زَيْنٌ”
“حسن خلق عبادت ہے اور خاموشی زینت ہے”
( تاریخ یعقوبی،ج 2، ص 264)

38۔”مَنْ سَرّهُ اَنْ يُنْسَاَ فِى اَجَلِهِ وَ يُزَادَ فِى رِزْقِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ”
“جو شخص اپنے موت میں تاخیر چاہتاہو ،اورچاہتا ہوکہ اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے”
(بحار الانوار، ج 71،ص 91)

39۔”انّ اَعْفَى النّاسِ مَنْ عَفَا عَنْ قُدْرَةٍ”
“بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ معاف کرنے والا وہ شخص ہے جو(انتقام) کی قدرت رکھتے ہوئے معاف کرے”
( بحار الانوار،ج 75، ص 121)

40۔”لاتَقُولُوا بِاَلْسِنَتِكُمْ مَا يَنْقُصُ عَنْ قَدْرِكُمْ”
اپنی زبان سے ایسی بات نہ کرو جو تمہاری قدرومنزلت کو کم کر دے”
( جلاء العيون، ج ۲ ص۲۰۵)

41۔”ايّاك اَنْ تَكُونَ مِمّنْ يَخَافُ عَلَى الْعِبَادِ مِنْ ذُنُوبِهِمْ وَيَاْمَنُ الْعُقُوبَةَ مِنْ ذَنْبِهِ”
ایسے لوگوں میں سے نہ ہونا جو دوسروں کے گناہوں کے بارے میں فکر مند اور اپنے گناہوں سے غافل رہتے ہیں۔
( تحف العقول،ص 273)

42۔ مَنْ نَفّسَ كُرْبَةَ مُؤْمِنٍ فَرّجَ اللّهُ عَنْهُ كُرَبَ الدّنيَا وَ الاخِرَةِ”
“جو شخص ايک برادر مومن کى مشکل کو حل کرے اور اسے اضطراب سے نجات دلائے تو خداوند عالم دنيا وآخرت کے اضطراب وپريشانيوں کو اس سے دور کرديتا ھے”
( بحار الانوار،ج 75، ص 122)

43۔” إِنّ الْكَريِمَ إِذَا تَكَلّمَ بِكَلاَمٍ، يَنْبَغِى اَنْ يُصَدّقَهُ بِالْفِعْلِ”
” بے شک عزت دار شخص کے لئے مناسب ہے کہ جب وہ کوئی کلام کرے تو اپنے عمل سے اسکی تصدیق کرے”
( مستدرک الوسائل، ج 7، ص 193)

44۔” مَنْ قَبِلَ عَطَاءَكَ، فَقَدْ اَعَانَكَ عَلَى الْكَرَمِ”
” جس نے تمھاری عطاکو قبول کر لیا گویا اس نے کرم کرنے میں تمااری مدد کی ”
( بحار الانوار، ج 68،ص 357)

45۔” ان اجود الناس من اعطی من لا یرجوہ “
” سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ہو”
(كشف الغمه، ج 2، ص 29.)

46۔”کفَّ عَنِ الْغَیبَةِ فَانَّها ادامُ کلابِ النَّارِ”
” غیبت سے اجتناب کرو کیونکہ یہ جہنم کے کتوں کی غذا ہے”
(تحف العقول، ص 245)

47۔”اوْصَلُ النَّاسِ مَنْ وَصَلَ مَنْ قَطَعَهُ”
“سب سے زیادہ صلہ رحم کرنے والا انسان وہ ہے جو قطع رحم کرنے والوں سے تعلقات قائم کرے”
(كشف الغمه، ج 2، ص 29)

48۔” ایھا الناس من جاد ساد ، و من بخل رذل”
“لوگو! جود و سخاوت کرنے والا سردارقرار پاتا ہے ، اور بخل کرنے والا ذلیل و رسوا ہوتا ہے”
( موسوعۃ کلمات الحسین،ص 752)

49۔”خَمْسٌ مَنْ لَمْ تَكُنْ فِيهِ لَمْ يَكُنْ فِيهِ كَثِيرُ مُسْتَمْتِعٍ: اَلْعَقْلُ، وَ الدّينُ وَ الاَدَبُ، وَ الْحَيَاءُ وَ حُسْنُ الْخُلْقِ”
“جس شخص میں یہ پانچ چیزیں نہ ہوں تو اس سے خاص فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا؛ عقل، دین، ادب، حیا اور اچھا اخلاق”
(حیاۃ الامام الحسین،ج 1، ص 181)

50۔”شُکرُکَ لِنِعمَۃٍ سَالِفَۃٍ یَقتَضِی نِعمَۃً آنِفَۃ”
“گزشتہ نعمتوں پر شکر کرنا آئندہ نعمتوں کی بنیادبنتا ہے”
(نزهة الناظر، ص 80)

50۔”الشَّرفُ و التَّقْوی وَالْقُنُوعُ راحَةُ الْابْدانِ”
” شرافت، تقوی اور قناعت ،اجسامکی راحت کاسامان ہیں”
(بحارالانوار، ج 75، ص 128)

51۔”مُجالَسَةَ اهْلَ الدَّناءَةِ شَرٌّ”
” برے لوگوں کی ہم نشینیضرررساں ہے”
(كشف الغمه، ج 2، ص 30)

52۔” من احبک نھاک و من ابغضک اغراک “
”دوست وہ ہے جو تمھیں برائی سے بچائے دشمن وہ ہے جو تمیںں برائیوں کی ترغیب دلائے “
(بحارالانوار، ج 75، ص 128)

53۔ “ایهَا النَّاسُ! نافِسُوا فی الْمَکارِمِ وَسارِعُوا فی الْمَغانِمِ”
“اے لوگو!اعلی اخلاقی اقدار کے حصول میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کرو اور معنوی خزانوں کے لئے جلدی کرو”
(کشف الغمہ،ج 2،ص 28)

54۔”الْاسْتِکبارُ صَلِفٌ وَالْعَجَلَةُ سَفَهٌ وَالسَّفَهُ ضَعْفٌ”
” تکبر خود نمائی کی علامت ہے ،جلد بازی حماقت اور حماقت کمزوری ہے”
(کشف الغمہ۔ج 2،ص 30)

55۔”انَّ الْحِلْمَ زینَةٌ وَالْوَفاءَ مُرُوَّةٌ”
” بے شک بردباری، زینت اور وفا ،مروت ہے”
(بحارالانوار، ج 75، ص 122)

56۔”من احجم عن الرّای وعییت بہ الحیل، کان الرفق مفتاحہ “
” جو شخص (اپنی) رائے مں ناکام ہوجائے اور اس کے لےںکوئی تدبرا کارگر نہ ہو رہی ہو تو نرمی اس (معاملے کے حل کے لے ) چابی کا کام دییا ہے۔”
(بحار الانوار؍ جلد۷۸ ؍ ص۱۲۸)

57۔”ان ابخل الناس من بخل بالسّلام”
” بخلا ترین شخص وہ ہے جو سلام مںم بخل کرتا ہے۔”
(بحارالانوار؍ جلد۷۸؍ ص۱۲۰)

58۔”اَهْلَکَ النّاسَ إثْنانِ: خَوْفُ الْفَقْرِ، وَ طَلَبُ الْفَخْرِ”
“دو چیزیں انسان کو ہلاک کر دیتی ہیں: فقر و فاقہ کا خوف اور فخرو مباہات کی طلب”
(بحار الانوار،ج 75،ص 54)

59۔”قیلَ: مَا الْفَضْلُ؟ قالَ (علیه السلام): مُلْکُ اللِّسانِ، وَ بَذْلُ الاْحْسانِ،”
امام حسین ع سے پوچھا گیا: (انسان کے لئے)فضیلت کیا ہے؟ تو فرمایا: زبان پر کنڑول اوراحسان کا بدلہ دینا”
(مستدرک الوسائل،ج 9،ص 24)

60۔” قیلَ: فَمَا النَّقْصُ؟ قالَ: التَّکَلُّفُ لِما لا یُعنیکَ”
” امام حسین ع سے پوچھا گیا:(انسان) کے لئے نقص کیا ہے؟ فرمایا: بے مقصد اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا”
(مستدرک الوسائل،ج 9،ص 24)

61۔”اصْبِرْ عَلَی الْحَقِّ وَ انْ کانَ مُرّاً”
“حق اگرچہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو اس پر صبر کرو”
(الكافى، ج 2، ص 28)

62۔”بُنَی ایاک وَ ظُلْمَ مَنْ لا یجِدُ عَلَیک ناصِراً الَّا اللَّه عز وجل”
“میرے بیٹے!جس کا مددگار اللہ کے علاوہ کوئی نہ ہو،خبردار اس پر ظلم نہ کرنا”
( بحار الانوار،ج 75،ص 120)

63۔ “لاتَقُولَنَّ فی اخیک الْمُؤْمن اذا تَواری عَنْک الَّا ما تُحِبُّ انْ یقُولَ فیک اذا تَوارَیتَ عَنْهُ”
اپنے مومن بھائی کے پیٹھ پیچھے صرف وہی بات کرو جو تم اپنی عدم موجودگی میں اپنے بارے ذکر کرنے کی خواہش رکھتے ہو”
(بحارالانوار، ج 75، ص 127)

64۔ “إنَّ حَوائِجَ النّاسِ إلَیکم مِن نِعَمِ اللهِ عَلَیکم فَلا تَمَلُّوا النِّعَمَ فتحور نقما “
لوگوں کی حاجتوں کا تم سے متعلق ہونا تمہارے اوپر خدا کی بڑی نعمت ہے لہذا نعمتوں کو(یعنی صاحبان حاجت کو) رنج نہ پہنچاوکہیں وہ نعمت عذاب میں نہ بدل جائے”
(بحار الانوار،ج 74،ص 205)

65۔”ایاک وَ ما تَعْتَذِرُ مِنْهُ فَانَّ الْمُؤْمِنَ لایسیءُ وَلا یعْتَذِرُ وَالْمُنافِقُ کلَّ یوْمٍ یسیءُ وَ یعْتَذِرُ”
“جس کام پر معذرت کرنا پڑے وہ کام ہی نہ کرو، بے شک مومن نہ برا کام کرتا ہےنہ اسکو معذرت کرنی پڑتی ہے اور منافق روز برائی کرتا ہے اور روز عذر خواہی کرتا ہے”
(بحارالانوار، ج 75، ص 120)

دنیا و آخرت
66۔”مَنْ نَفّسَ كُرْبَةَ مُؤْمِنٍ فَرّجَ اللّهُ عَنْهُ كُرَبَ الدّنيَا وَ الاخِرَةِ”
” جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے ،خدا اسکے دنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرے گا “۔
( بحار الانوار،ج 75،ص 122)

67۔”النّاسُ عَبیدُالدُّنْیا، وَ الدّینُ لَعِق عَلى ألْسِنَتِهِمْ، یَحُوطُونَهُ ما دارَتْ بِهِ مَعائِشَهُمْ، فَإذا مُحِصُّوا بِالْبَلاء قَلَّ الدَّیّانُونَ۔”
“لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کا چٹخارہ ہے،جب تک دین ان کی زندگی گزارنے کا ذریعہ ہے، ان کے پاس دین ہے لیکن جیسے ہی ان پر کوئی مشکل آن پڑتی ہے دینداروں کی تعداد کم ہوجاتی ہے۔”
(بحار الانوار ج 75،ص 116)

68۔”عِباداللهِ! لا تَشْتَغِلُوا بِالدُّنْیا، فَإنَّ الْقَبْرَ بَیْتُ الْعَمَلِ، فَاعْمَلُوا وَ لا تَغْفلُوا”
اللہ کے بندو! دنیا میں اپنے آپ کو گم نہ کرو،بے شک قبر عمل کا گھر ہے پس عمل انجام دو اور غفلت میں پڑے نہ رہو”
(نہج الشہادۃ ،ص 47)

69۔” لَوْ عَقَلَ النّاسُ وَ تَصَوّرُوا الْمَوْتَ لَخَرِبَتِ الدّنيَا”
اگر لوگ عقل سے کام لیتے اور موت کو اس کی واقعی شکل کے ساتھ تصور کرتے تو دنیا ویران ہو جاتی”
(احقاق الحق،ج 11،ص 592)

70۔”الْبُكَاءُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ نَجَاةٌ مِنَ النّارِ”
” خوف خدا میں گریہ و زاری کرنا دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہے”
( مستدرک الوسائل ج 11۔ص 245)

71۔”إنَّ اللهَ خَلَقَ الدُّنْیا لِلْبَلاءِ، وَ خَلَقَ أهْلَها لِلْفَناءِ”
“بے شک اللہ تعالی نے دنیا کو آزمائش کے لئے اور دنیا والوں کو فنا ہونے کے لئے خلق کیا ہے۔”
(نهج الشّهاده: ص 196)

72۔”لا یأمَنْ یوم القیامۃ الَّا مَنْ قَدْ خافَ اللَّهَ تَعالی فی الدنیا”
“قیامت کے دن وہی شخص امن و امان میں ہوگا جو دنیا میں خوف خدا رکھتا ہو”
(بحار الانوار ج ،44،ص192)

73۔” إعْمَلْ عَمَلَ رَجُل یَعْلَمُ انّه ماخُوذٌ بِالاْجْرامِ، مُجْزی بِالاْحْسانِ”
“اس شخص کی طرح عمل کرو جو جانتا ہے کہ جرائم کا مواخذہ ہوگا اور احسان کی جزا ملے گی”
(بحار الانوار،ج 2،ص 130)

74۔”افْعَلْ خَمْسَةَ اشْیاءٍ وَاذْنِبْ ما شِئْتَ فَاوَّلُ ذلِک: لاتَأْکلْ رِزْقَ اللَّهِ وَاذْنِبْ ما شِئْتَ وَالثَّانی: اخْرُجْ مِنْ وِلایةِ اللَّهِ وَاذْنِبْ ما شِئْتَ وَالثَّالِثُ: اطْلُبْ مَوْضِعَاً لا یراک اللَّهُ وَاذْنِبْ ما شِئْتَ وَالرَّابِعُ: اذا جاءَ مَلَک الْمَوْتِ لَیقْبضَ روُحَک فَادْفَعْهُ عَنْ نَفْسِک وَاذْنِبْ ما شِئْتَ وَالْخامِسُ: اذا ادْخَلَک مالِک فی النّارِ فَلا تَدْخُلْ فی النَّارِ وَاذْنِبْ ما شِئْتَ”
” پانچ امور انجام دو اور جو چاہے گناہ کرو؛
1۔ رزق الٰہی نہ کھاو اور جیسے چاہو گناہ کرو۔
2۔اللہ تعالی کی حاکمیت سے نکل جاو اور جیسے چاہو گناہ کرو۔
3۔ ایسی جگہ تلاش کرو جہاں خدا تجھے نہ دیکھے پھر جو چاہے گناہ کرو۔
4۔ جب ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے آئے تو اسے دھتکار دو اور جیسے چاہو گناہ کرو۔
5۔ جب مالک تجھے جہنم میں داخل کرے تو وہاں داخل ہونے سے انکار کرو اور جو چاہے گناہ کرو”
(بحار الانوار ج 75،ص 120)

75۔۔”یَا ابْنَ آدَم! اُذْكُرْ مَصْرَعَكَ وَ مَضْجَعَكَ بَیْنَ یَدَی اللهِ، تَشْهَدُ جَوارِحُكَ عَلَیْكَ یَوْمَ تَزِلُّ فیهِ الْأقْدام”
فرزند آدم! موت اور جان کنی کے لمحات کو یاد کرو اور پھر قبر میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی آرام گاہ کو یاد کرو کہ جب (اللہ کی بارگاہ میں) تمہارے اعضاء و جوارح تمہارے خلاف گواہی دیں گے وہ دن جب قدوم میں لغزش اور سستی ہوگی”
(نهج الشّهادة: ص 59)

76۔”یَا ابْنَ آدَمَ، إنَّما أنْتَ أیّامٌ، کُلَّما مَضى یَوْمٌ ذَهَبَ بَعْضُکَ”
“فرزند آدم!تمہاری(زندگی) کے ایام محدود ہیں،جب بھی ایک دن گزرتا ہے تو (زندگی )کا ایک حصہ کم ہوجاتا ہے۔”
(نهج الشّهاده: ص 346)

قیام کے محرکات
77۔”انی لا اری الموت الا سعادہ ولا الحیاة مع الظالمیں الابرما“
میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو ننگ و عار سمجھتا ہوں “ ۔
(بحار الانوار: ج 44، ص 192)

78۔” موت فی عز خیر من حیات فی ذل “
” ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کیںی بترد ہے”
(بحار الانوار، ج ۴۴ ص ۱۹۲ ح۴)

79۔قال علیہ السلام” أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص قَدْ قَالَ فِي حَيَاتِهِ مَنْ رَأَى سُلْطَاناً جَائِراً مُسْتَحِلًّا لِحُرُمِ اللَّهِ نَاكِثاً لِعَهْدِ اللَّهِ مُخَالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اللَّهِ بِالْإِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ثُمَّ لَمْ يُغَيِّرْ بِقَوْلٍ وَ لَا فِعْلٍ كَانَ حَقاً عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ”
آپ نے فرمایا”رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا: اے لوگو! جو شخص ظالم بادشاہ کو ديکھے کہ جو حرام خدا کو حلال کررہا ہے، خداوند عالم کے حکم کى خلاف ورزى کررہا ہے، الله کے رسول کے لائے ہوئے قوانين کى مخالفت کررہا ہے، بندوں کے درميان ظلم وستم، معصيت ونافرمانى اور دشمنى کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، اور وہ شخص اپنے فعل و عمل کے ذريعہ اس کى مخالفت نہ کرے، تو خداوند عالم پر لازم ہے کہ اس شخص کا ٹھکانہ بھى اسى ظالم کے ساتھ قرار دے۔
( بحار الانوار،ج 44،ص 381)

80۔”ألا ترون أن الحق لا يُعمل به ، وأنّ الباطل لا يُتناهى عنه ، ليرغب المؤمن في لقاء الله محقّا”
” کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے نہیں روکا جا رہا ایسے میں ایک مومن کو خدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہیے”
( تحف العقول، ص 245)

81۔”وأني لم أخرج أشرا ولا بطرا ولا مفسدا ولا ظالما وإنما خرجت لطلب الاصلاح في أمة جدي صلى الله عليه وآله أريد أن آمر بالمعروف وأنهى عن المنكر، وأسير بسيرة جدي وأبي علي”
“میں طغیانی و سرکشی، عداوت، فساد کرنے اور ظلم کرنے کے لیے مدینہ سے نہیں نکلا، میں فقط اور فقط اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنے کے لیے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں اور میں اپنے نانا اور اپنے والد علی ابن ابی طالب(ع) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں”
(بحار الانوار،ج 44،ص 329)

82۔”ألا إَنَّ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ وَ تَركوا طَاعَةِ الرَّحْمَنِ وَ أَظْهَرُوا الْفَسَادَ وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَ اسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْ‏ءِ وَ أَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ وَ حَرَّمُوا حَلَالَهُ و أنا أحَقُّ مَنْ غَيَّر”
“آگاہ ہو جاؤ کہ انھوں (بنی امیہ) نے شیطان کی پیروی شروع کر دی ہے اور خداوند کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، واضح طور پر فتنہ اور فساد کرتے ہیں، احکام اور حدود الہی پر عمل نہیں کرتے،بیت المال کہ جو تمام امت کا حق ہے اس کو انھوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے، خداوند کے حرام کو حلال اور خداوند کے حلال کو حرام کر دیا ہے، میں اس تمام صورت حال کو بدلنے کے لیے دوسروں کی نسبت مناسب تر ہوں۔”
(تاريخ الطبري، ج 4، ص 304 – 305)

83۔”إنا أهل بيت النبوة، ومعدن الرسالة، ومختلف الملائكة، بنا فتح الله وبنا يختم، ويزيد رجلٌ شاربٌ للخمور، قاتل النفس المحترمة، معلنٌ بالفسق، ومثلي لا يبايع مثله“
” ہم نبو ت کا خا ندان ، رسا لت کی کان ، فرشتوں کی آمدورفت کی جگہ اور نزو ل رحمت خدا کا محل ہیں ، خدا و ندنے ہمارے ذریعے ابتداء فرما ئی اور ہم ہی پر اختتا م فرمائے گا اور یزید ایک فاسق،فاجر ، شرابخور، بے گناہوں کا قاتل اور کھلم کھلا فسق و فجور کرنے والا شخص ہے، مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ”
(مقتل اللہوف،ص 17)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے