آج کربلاء کی ضرورت کیوں ہے؟
تحریر: محمد علی جوہری برسیلی
تاریخ عالم کا دامن قربانیوں اور ثابت قدمی کی لازوال ایمان افروز داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ حضرت موسٰیؑ کو دربار فرعون سے کس کس طرح کی اہانت کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر آپ کے پائے استقامت کو ذرہ برابر بھی جنبش نہ ہوئی۔ حضر ت زکریاؑ آرے سے چیر ڈالے گئے [1] مگر کوئی قوت ان کے ایمان میں شگاف ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔پھر چشم فلک نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو حیرت سے دیکھا حضرت ابراہیمؑ کو کس کس مرحلے سے نہیں گزرنا پڑا۔ ترکِ وطن، ترکِ مال، ترکِ اولاد، ترکِ جان زرخیز زمین چھوڑ کر مکے کی بے آب و گیاہ میں بخوشی منتقل ہو گئے [2] خاندان اور نمرود کی دھمکیوں کو نظر انداز کر کے عقیدہ توحید پر قائم رہے آگ کا الاو اُن کے لیے تیار ہوگیا، جب آگ میں پھینکا جانے لگا تو حضرت جبرائیل نے آکر کہا : اللہ سے کوئی دعا یا درخواست کرنی ہے تو میں حاضر ہوں جب موت ایک لمحے کے فاصلے پر تھی تو خلیل اللہ بولے میرا اللہ مجھ سے زیادہ میرے حال سے واقف ہے [3] اور آگ میں کود گئے اور پھر ایک الہامی اشارے پر اپنے بڑھاپے کے اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی گردن پر چھری پھیر دی ۔ [4] اسی طرح کتاب تاریخ، قربانی کی بے شمار داستانوں کو اپنے صفحات میں رقم کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی یہاں تک 10 محرم 61 ہجری کو تاریخ عالم کا وہ عظیم واقعہ پیش آیا جس نے سابقہ تمام قربانیوں کو مات دیکر تاریخ کی عظیم قربانی کے اعزاز کو اپنے نام کردیا یہی وجہ ہے کہ آج تک رونما ہونے والی تاریخ کی تمام قربانیوں کو ترازو کے ایک پلٹرے میں اور نواسہ رسولؐ فرزند بتولؑ حضرت امام حسینؑ کی عظیم قربانی کو دوسرے پلڑے میں رکھ دی جائے تو یقینا امام حسینؑ کی عظیم قربانی کا پلڑا بھاری ہو گا۔ امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب با وفا میدان کربلا میں اس طرح لڑے کہ آپ کی شجاعت کے آگے سر فروشی کے تمام افسانے دھند پڑ گئے۔ یزیدی لشکر نے انسانی حدود سے نکل کر وحشت و درندگی اور سفاکی کے وہ مظاہرے کئے کہ اُن کے آگے درندوں کی خون آشامی بھی ہیچ تھی۔ یزیدی لشکر کے تر کشِ ستم میں جتنے بھی زہریلے تیر تھے سب کے سب امامؑ اور آپ کے ساتھیوں کے سینوں میں بے دردی سے اتار دئیے گئے۔ گستاخی اور بے ادبی کے بے شمار حربے آزمائے گئے۔ لیکن حضرت امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے پائے استقامت میں زرہ بھی جنبش نہ ہوئی۔ حضرت امام حسینؑ جو اسلام کے نظریے، فکر اور فلسفے کے امام تھے اُنہوں نے اسلام کی اصل روح پر عمل کرتے ہوئے یزیدی آمریت کے خلاف حق کا علم بلند کر دیا۔ امامؑ نے ثابت کر دیا کہ دنیا میں باطل کی کامیابی کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ اس کی ہر شکست وقتی اور ہر فتح عارضی ہوتی ہے، دنیا میں حق اور سچ کو مستقل حیثیت حاصل ہے۔ [5] آپؑ نے بتایا کہ ہر حال میں حق کا ساتھ دو اور باطل سے ٹکراجائو۔ [6] امام عالی مقام کا کردار قرآن و حدیث کے احکام کی عملی تفسیر ہے اسی لئے اگر تمام کائنات مل کر بھی حضرت امام حسینؑ کی مدح و ثناء کرے تو حشر تک آپ کی سیرت کا بیان ختم نہ ہو گا۔ زبانیں عاجز رہ جائیں گی اور لفظوں کا ذخیرہ اپنی تنگ دامنی پر شرمسار ہو جائیگا ۔ تاریخ اپنی تمام تر مصلحتوں کے باوجود اِس بات پر گواہ ہے کہ امام کے مقام کو نہ کبھی گہن لگا اور نہ لگے گا۔ خدا کی قسم چشمِ فلک اور انسانی آنکھ نے قربانی کے باب میں آپ جیسا کوئی نہ دیکھا اور نہ دیکھ پائے گی۔ صفاتِ ِعالیہ کا اِتنا بھر پور اجتماع ہزاروں سال بعد کسی میں نظر آتا ہے جو امام میں نظر آیا۔ ساری کائنات آپ کے جانے سے تہی دست ہو گئی۔ امامؑ اور آپ کے ساتھیوں نے جس جرات،بے باکی اور جذبے سے یزیدی لشکر کا مقابلہ کیا اِس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ کربلا کے روشن واقعات کو صدیوں کا غبار بھی دھندلا نہ کر سکا۔ امام حسینؑ نے کربلا میں بے مثال قوت، برداشت اور جرات کا مظاہرہ کیا صدیوں سے روز و شب کے ہنگامے اِسی طرح جاری و ساری ہیں زمین اِسی طرح اپنے محور پر گھومتی رہے گی۔ لیکن جب بھی یومِ عاشورہ آئے گا تو ہر آنکھ اشکبار ہو جائے گی۔ ہر آنکھ اور پیشانی عقیدت سے سجدہ ریز ہو جائے گی۔ جب بھی کربلا کا ذکر ہوتا ہے تو سنگ و آہن بھی رقیق شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ [7] فرطِ عقیدت سے ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے یومِ عاشورہ کے دن آسمان سے اُداسیوں کی بارش ہوتی ہے، [8] ساری کائنات ایک سرے سے دوسرے سرے تک سوگوار ہو جاتی ہے، غمِ حسینؑ میں ہر شے ماتمی لباس پہن لیتی ہے، زمین و آسمان کے منہ سے آہیں اُبل پڑتی ہیں، دس محرم انسانی کیلنڈر کا واحد دن جب خاک کے زرے، درختوں کے پتے اور سمندروں کے قطرے اداس ہو جاتے ہیں۔ جب ہوائیں، فضائیں، کرنیں، لہریں، اداسی کا ماتمی لباس پہن لیتی ہیں پوری کائنات میں شام غریباں بچھ جاتی ہے۔ اب یہ دن صرف اور صرف امام حسینؑ کا دن ہے۔ 10 محرم 61 ہجری کو دو انسانوں کامقابلہ نہیں تھا یہ دو نظریات کا ٹکراؤ تھا دنیا میں روزِ اول سے نیکی اور شر کی جنگ جاری ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز — چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی [9] دنیا میں جب بھی ظلم اور باطل کی قوتیں سر اٹھائیں گی تو نیکی کی قوتیں بھی حرکت میں آئیں گی برائی اور ظلم کی علمبردار یزیدی قوتیں اچھائی اور نیکی کی علمبردار حسینی قوتیں بر سر پیکار ہونگیں۔ آخری جیت ہمیشہ حق اور سچ کی ہو گی امام حسینؑ نے باطل کے مقابلے پر اکیلے کھڑے ہو کر قیامت تک کے مظلوموں کو ظالم اور جابر سے ٹکرانے کا حوصلہ دیا ہے اگر کربلا میں نواسہ رسولؐ یزیدی لشکر کے سامنے کھڑے نہ ہوتے تو قیامت تک کسی مظلوم نے ظالم کے خلاف کھڑا نہیں ہونا تھا۔ امام حسینؑ نے ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی ایک عظیم مثال قائم کی ظلم سے ٹکرانے کا حوصلہ اور راستہ دکھایا۔ آج جب دنیائے اسلام میں ظلم و بربریت کا ناسور پھیل چکا ہے ،ظالم مظلوموں پر ظلم کر رہے ہیں تو کوئی بھی نہیں جو ظالموں کا ہاتھ روک سکے۔ دنیائے اسلام میں آج بھی بار بار اکسیویں صدی کی کربلا برپا ہوتی ہے۔ یزیدیت کی نمائندگی کرنے والے عناصر آج بھی حسینیت کے قافلے پر میزائلوں اور بموں کی برسات کر رہے ہیں، معصوم بچوں اور عورتوں تک کا قیمہ سرِ عام بناتے ہیں مگر ان مظلوموں کا کوئی پرسان حال نہیں، کوفیوں کی طرح مسلم دنیا یزیدی نمائندوں کے ظلم پر مصلحتوں کا شکار ہو کر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، آج فلسطین، شام، اور یمن کی گلیوں میں سینکڑوں معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور کمزوروں کی نعشیں بے یارو مدد گار نظر آتی ہیں اور چاروں طرف ہل من ناصر ینصرنا کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے مگر عالم اسلام میں کوئی ان کی آواز پر لبیک کہنے والا نہیں۔ کیا مظلوموں کے ساتھ آج عالم اسلام کا برتاؤ اہل کوفہ جیسا نہیں ہے؟ موجودہ صورت کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہم فکر حسینؑ کے وارث کہلانے کے قابل ہیں؟ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے کیا آج کربلاء کی ضرورت نہیں ہے؟ یقینا آج کے دور کا یزید بڑا مکار ہے اسی لئے ہر حسینی کو تمام کاموں میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اسے نبھانے کے ساتھ وقت کے کربلا میں داخل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ 61 ہجری کی طرح وقت کا حسینؑ میدان کار زار میں تنہا نہ رہے۔ اہل کوفہ کی طرح وقت کے حسین کی نصرت کو ترک کرکے پھر سے ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا نہ پڑے اس لئے آج بھی کربلاء کی ضرورت ہے۔
____________________
حوالہ جات:
[1] – سيد هاشم بحرانى،«البرهان في تفسير القرآن» ج1 ص270 قم: مؤسسه بعثه1374 ش.
[2] -سورہ ابراہیم: 37
[3] -«شرح الكافي- الأصول و الروضة» تحقیق: ابوالحسن شعرانى ج12 ص508 ،تهران: المكتبة الإسلامية1382 ق.
[4] -الصافات: 102 – 105
[5] – “جولة الباطل ساعة و جولة الحقّ الى السّاعة [5] (فضل بن حسن طبرسى،« نثر اللآلئ » ترجمه: حميد رضا شيخى، ص60 مشهد: بنياد پژوهش هاى اسلامى 1384ش.)
[6] وَ مِثْلِي لَا يُبَايِعُ بِمِثْلِه [6] (على بن موسى ابن طاووس «اللهوف على قتلى الطفوف » ص23 تهران: جهان 1348ش.)
[7] – قطب الدين راوندى، جلوههاى اعجاز معصومين: ترجمه: غلام حسن محرمى،ص230 قم: دفتر انتشارات اسلامى 1378 ش.
[8] – جعفر بن قولویه « كامل الزيارات» ترجمه: عبد الحسين امينى،ص90 نجف اشرف: دار المرتضوية1356 ش.
[9] – علامه اقبال لاهوری«کلیات اقبال» اسرارخودی
https://www.altabliq.com/urdu/article/740/